رسائی کے لنکس

بوسٹن: میراتھون ریس مقدمہ، زوخار کو موت کی سزا


عدالتی اسکیچ
عدالتی اسکیچ

کمرہٴعدالت میں داخل ہوتے ہوئے اور فیصلہ سن کر، زوخار سارنیف کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی۔ اُس نے نیلے رنگ کا سویٹر اور شوخ رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا۔۔۔۔زوخار سارنیف نے ہاتھ باندھ رکھے تھے اور مدعا علیہ کی میز کی طرف نظریں جمائے رکھیں

بوسٹن میراتھون ریس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے، بدھ کو جیوری نے چیچنیا سے ترک وطن کرکے امریکہ آنے والے، زوخار سارنیف کو تمام الزامات پر قصوروار قرار دیتے ہوئے، موت کی سزا سنائی ہے۔

وفاقی جیوری نے فیصلہ دیا ہے کہ 21 برس کا کالج کا یہ سابق طالب علم، موت کی سزا کا حقدار ہے۔

اس سے قبل، عدالت نے دو روز تک، 11 گھنٹے کی آپسی مشاورت کے بعد، یہ فیصلہ سنایا۔

بوسٹن میں، 15 اپریل، سنہ 2013ء کے اِن بم دھماکوں میں تین افراد ۔۔۔آٹھ برس کے مارٹن رچرڈ؛ 23 برس کی غیر ملکی چینی طالبہ، لِنگزی لُو اور 29 سالہ کرسٹل کیمپ بیل۔۔ ہلاک ہوئے، جب کہ 260 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

اس واقعے کے تین روز بعد، ’ایم آئی ٹی‘ کے گشت پر مامور ایک اہل کار، شین کولیئر کی ہلاکت واقع ہوئی، جس الزام میں بھی زوخار کو مجرم قرار دیا گیا۔

اُسے 30 کے 30 الزامات میں قصوروار ٹھہرایا گیا، جن میں سازش اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنا شامل ہے، جن ساری شقوں کے اعتبار سے مجرم موت کا حقدار ہے۔

کمرہٴعدالت میں داخل ہوتے ہوئے اور فیصلہ سن کر، زوخار سارنیف کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی۔ مجرم نے نیلے رنگ کا سویٹر اور شوخ رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ جب وہ بیٹھنے لگا، تو وکیل جوڈی کلارک نے اُن کی پیٹھ پر تھپکی دی۔ زوخار سارنیف نے ہاتھ باندھ رکھے تھے اور مدعا علیہ کی میز کی طرف نظریں جمائے رکھیں، ایسے میں جب اُسے مجرم قرار دیا جا رہا تھا۔

جرمانہ سنائے جانے کے مرحلے کی سماعت کے موقع پر، زوخار کے وکلاٴ بچاؤ کے ضوابط کا سہارا لیں گے، جن کے بارے میں اُنھیں توقع ہے کہ اِن کی بنیاد پر اُن کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔

اس سے ایک ہی روز قبل، استغاثہ اور مدعا علیہان نے عدالت سے مانا تھا کہ زوخار جرم میں ملوث تھا۔

بارہ رکنی جیوری کے لیے اب یہ فیصلہ باقی رہ گیا تھا آیا 21 برس کا زوخار سارنیف اپریل 2013ء کے حملوں کے سلسلے میں درج 30 وفاقی الزامات میں قصوروار ہے یا نہیں۔


بوسٹن میراتھون ریس میں ہونے والے دو دھماکوں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک جب کہ 264 زخمی ہوئے، جن کا الزام زوخارسارنیف اور اُن کے بڑے بھائی، تمرلان پر دیا گیا ہے۔

بم حملوں کے چوتھے روز، زوخار کے بڑے بھائی پولیس کی گولی لگنے اور حادثاتی طور پر چھوٹے بھائی کی گاڑی تلے آنے سے واقع ہوئی۔

مدعا علیہان کے وکلا نے دلیل پیش کی تھی کہ زوخار سارنیف کالج کا ایک بے قصور طالب علم تھا، جو اپنے بڑے بھائی کے زیر اثر ہونے کے باعث شدت پسندی کی طرف راغت ہوا۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ سارنیف برادران، جو قرغیزستان میں پیدا ہوئے اورامریکہ آنے سے پہلے کچھ عرصہ روس کے مسلمان اکثریت والے علاقے، دغستان میں رہے؛ وہ انتہا پسند مذہبی جذبے کا شکار تھے اور عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں کا بدلہ لینے کے خواہاں تھے۔

XS
SM
MD
LG