برازیل میں انتہائی دائیں بازو کے کانگریس مین جائیر بولسونارو صدارتی انتخاب جیت گئے ہیں جس سے شہری حقوق اور تقریر کی آزادی کے سابق سطح پر واپس جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
اتوار کے روز دوسرے مرحلے کے انتخابات میں تقریباً تمام ووٹوں کی گنتی کے بعد سوشل لبرل پارٹی کے بولسونارو لگ بھگ 56 فیصد ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ورکرز پارٹی کے ان کے مد مقابل فرنیندو حادید نے 44 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
منتخب صدر جائیر بولسونارو کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں تشکیل پائے گی جن کا وہی نصب العین ہے جو ان لوگوں کا ہے جو اس وقت میری حمایت کر رہے ہیں۔ اور وہ نصب العین ہے برازیل کو ایک عظیم، آزاد اور خوشحال قوم میں تبدیل کرنا۔ آپ یہ یقین کر سکتے ہیں کہ ہم اس کے لیے دن رات کام کریں گے۔
برازیل کے منتخب صدر بولسونارو کی جیت ووٹروں کی جانب سے برازیل کو گزشتہ 15 سال میں بیشتر وقت حکمرانی کرنے والی بائیں بازو کی انتظامیہ کو مسترد کرنے کی عکاسی کرتی ہے۔
لاطینی امریکہ کی یہ سب سے بڑی معیشت 2014 سے انحطاط کا شکار رہی ہے۔ سیاسی انتظامیہ کو انتہائی بلند درجے کی بدعنوانی کے ایک اسیکنڈل سے دھچکہ لگ چکا ہے اور جرائم اور قتل کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔
بولسونارو نے خود کو قانون کی حکمرانی سے متعلق ایک ایسا امیدوار قرار دیتے ہوئے تبدیلی کی مہم چلائی تھی جو پولیس کو جرائم کی پکڑ دھکڑ کے لیے مزید آزادی دیں گے۔
لیکن برازیل کے بہت سے باشندے مسٹر بولسونارو کی جانب سے 1964 سے 1985 تک کی فوجی ڈکٹیٹر شپ کی اپنی برملا تعریف کی وجہ سے اور ہم جنس پرستوں، سیاہ فاموں اور خواتین کے بارے میں ان کے جارحانہ تبصروں کی وجہ سے پریشان ہیں۔
بولسونارو ایک سابق فوجی کیپٹن ہیں، جن کی انتہائی دائیں بازو کی شعلہ بیانی اور وعدے اور جوشیلی شخصیت کی وجہ سے انہیں ٹراپیکل ٹرمپ کا لقب مل چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ حکابی کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کی رات منتخب صدر بولسونارو کو مبارکباد دینے کے لیے ٹیلی فون کیا۔ حکابی کا کہنا ہے کہ دونوں راہنماؤں نے امریکہ اور برازیل کے عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے شانہ بشانہ کام کرنے کے ایک بھر پور عزم کا اظہار کیا۔