رسائی کے لنکس

برطانیہ اور یورپی یونین بریگزٹ 31 اکتوبر تک مؤخر کرنے پر آمادہ


برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے فرانس کے صدر کے ہمراہ اجلاس میں شرکت کے لئے آرہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے فرانس کے صدر کے ہمراہ اجلاس میں شرکت کے لئے آرہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

یورپی یونین نے برطانیہ کو برسلز میں گھنٹوں جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے 31 اکتوبر تک کی مہلت دے دی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق 31 اکتوبر تک برطانیہ کی ڈیل یا بغیر کسی ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدگی کا حتمی فیصلہ ہوگا۔

واضح رہے کہ برطانوی وزیرِ اعظم نے یورپی یونین سے کسی سمجھوتے کے تحت علیحدگی کے لیے 30 جون تک کی مہلت طلب کی تھی لیکن یورپی یونین نے انہیں مزید چھ ماہ کا وقت دے دیا ہے۔

یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کی حتمی تاریخ 12 اپریل تھی۔ لیکن نئی پیش رفت کے بعد برطانیہ کے بغیر کسی ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدگی کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے۔

کن شرائط پر مہلت ملی؟

مذاکرات کے دوران یہ بھی طے پایا ہے کہ برطانوی وزیرِ اعظم مئی میں نئے انتخابات کرانے کے بعد پارلیمنٹ کو ڈیل پر دوبارہ اعتماد میں لیں گی۔ جب کہ جون میں یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی پارلیمان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

اگر تھریسا مے یہ شرائط پوری کرنے میں ناکام رہیں تو یکم جون کو یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا۔

برسلز میں یورپی یونین اور برطانوی حکام کے درمیان مذاکرات کے دوران برطانیہ کو مزید مہلت دینے کی تجویز کی فرانس نے بھرپور مزاحمت کی۔

مہلت ملنے کے باوجود واضح نہیں کہ برطانیہ کن شرائط پر اور کب یورپی یونین سے علیحدہ ہوگا کیوں کہ برطانوی وزیرِ اعظم کو اس معاملے پر اپنی پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اجلاس کے دوران جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل نے برطانیہ کے بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی کی مخالفت کی جس کے بعد برطانیہ کو مزید مہلت ملنے کی راہ ہموار ہوئی۔

اجلاس کی صدارت کرنے والے یورپین کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ مہلت ملنے سے بریگزٹ پر برطانوی وزیرِ اعظم کی کنزرویٹو پارٹی اور برطانوی عوام کی رائے تبدیل ہوسکتی ہے۔

بریگزٹ اب بھی آسان نہیں ہوگا

معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے تھریسا مے کا کہنا تھا کہ آنے والے دن آسان نہیں ہوں گے۔ لیکن ان کے بقول، "ہمارے پاس وقت ہے کہ اب کسی قابلِ عمل طریقہ کار تک پہنچ جائیں جس پر سب کا اتفاق ہو۔"

اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ توسیع ملنے پر بہت سے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم جمعرات کو اس معاملے پر حزبِ اختلاف کی لیبر پارٹی کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرے گی۔

فرانس نے مخالفت کیوں کی؟

فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں کا کہنا تھا کہ اکثریت نے برطانیہ کو مزید مہلت دینے پر اتفاق کیا لیکن میرے خیال میں یہ منطق درست نہیں۔ یہ نہ تو برطانیہ اور نہ ہی یورپی یونین کے مفاد میں ہے۔

فرانس کے صدر میخواں کے اعتراض پر اجلاس میں گھنٹوں بحث جاری رہی۔ ان کے بقول برطانیہ کو زیادہ وقت دینے سے یورپی یونین کے مشترکہ اصلاحاتی ایجنڈے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کا معاملہ بار بار التوا کا شکار ہو رہا ہے جس کی وجہ ان شرائط پر اتفاق رائے نہ ہونا ہے جس پر برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوگا۔

اس معاملے پر برطانوی وزیرِ اعظم کو خود اپنے ہی ملک میں تنقید کاسامنا ہے اور ان کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اندر بھی اس معاملے پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ 2016ء میں ریفرنڈم کے ذریعے برطانوی عوام نے یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG