رسائی کے لنکس

برکس سربراہی اجلاس: گروپ کی توسیع اور مقامی کرنسی میں تجارت پر اختلافات


جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں جاری پانچ ملکوں کے اجلاس 'برکس' میں مقامی کرنسی میں تجارت کے معاملے پر اختلافات سامنے آئے ہیں جب کہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ گروپ میں شامل ممالک اس میں توسیع کے معاملے پر بھی مختلف آرا رکھتے ہیں۔

برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل گروپ ’برکس‘ کے سربراہوں کے تین روزہ اجلاس کا اصل ایجنڈا گروپ میں توسیع اور باہمی کرنسی میں تجارت کو فروغ دینا ہے۔

لیکن اس سلسلے میں بظاہر اختلافات نظر آ رہے ہیں۔ یہ اجلاس کرونا وبا کی وجہ سے تین برس کے بعد پہلی بار بالمشافہ شرکت کے ساتھ ہو رہا ہے۔

نئی دہلی کی سابق سفارت کار منجو سیٹھ کا کہنا ہے کہ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ وہ فطری طور پر چاہے گا کہ برکس میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو اور یہ گروپ دیگر گروپس کا متبادل بن جائے یہی وجہ ہے کہ وہ برکس میں توسیع پر زور دے رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ برکس میں توسیع اسی وقت ہو سکتی ہے جب تمام رکن ممالک ایسا چاہیں اور اس بارے میں کوئی معیار طے ہو جائے۔ ان کے بقول تاحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی معیار طے ہوا ہے یا نہیں۔

یاد رہے کہ ایران، سعودی عرب، ارجنٹائن، انڈونیشیا اور مصر سمیت تقریباً 40 ملک برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق چین پاکستان کو بھی گروپ کا رکن بنانا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ اجلاس میں پاکستان کے غیر سرکاری نمائندوں کی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔

منجو سیٹھ کہتی ہیں کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں ہر ملک اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے جس فورم پر بھی جگہ مل سکے وہ وہاں پہنچنا چاہتا ہے۔

کیا برکس، جی سیون کا متبادل ہو سکتا ہے؟

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے خیال میں چین اس لیے برکس میں توسیع کر کے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے تاکہ وہ گلوبل سپلائی چین پر قابض ہو سکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ برکس نے علاقائی معیشت کو متحد ہونے کے لیے جو ایک پلیٹ فارم دیا ہے وہ زیادہ قابلِ عمل ہے۔ وہ دیگر تجزیہ کاروں کی اس رائے سے متفق ہیں کہ چین برکس کو ایک متبادل گروپ کے طور پر بنانا چاہتا ہے۔

امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر مقتدر خان کے مطابق اس بارے میں گروپ میں اختلافات ہیں۔ بھارت اور برازیل اسے گلوبل ساؤتھ کا ایسا فورم سمجھتے ہیں جہاں ان ملکوں کو اکٹھا ہونے اور اقتصادی ترقی میں ایک دوسرے کی مدد کا موقع ملتا ہے۔

اُنہوں نے اپنے یو ٹیوب چینل کے پروگرام میں کہا کہ روس اور چین چاہتے ہیں کہ برکس سات طاقت ور ملکوں کے گروپ ’جی سیون‘ کا متبادل بن جائے کیوں کہ برکس کی جی ڈی پی بڑھ رہی ہے اور جی سیون کی نیچے جا رہی ہے۔ تاہم اب بھی دونوں کی معیشتوں میں کافی فرق ہے اور وہ اس فرق کم کرنا چاہتے ہیں۔

برکس اجلاس کے ایجنڈے میں امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے مقصد سے تجارت اور مالیاتی لین دین میں رکن ممالک کے درمیان مقامی کرنسی کے استعمال کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔

لیکن جنوبی افریقہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ مشترکہ برکس کرنسی کے سلسلے میں کوئی تبادلۂ خیال نہیں ہو گا۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ برکس کو امریکہ کے جیو پولیٹیکل حریف کے طور پر تبدیل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہیں۔

ان کے بقول یہ مختلف الخیال ملکوں کا جن کے درمیان اہم امور پر اختلاف رائے ہے، ایک اجتماع ہے۔

یاد رہے کہ برازیل نے ڈالر پر انحصار کو ختم کرنے کے لیے برکس مشترکہ کرنسی کا خیال پیش کیا ہے۔

مقتدر خان کے مطابق بھارت مشترکہ کرنسی کا مخالف ہے لیکن وہ مقامی کرنسی میں تجارتی فروغ کا حامی ہے۔

اسد مرزا کے خیال میں چونکہ متعدد ممالک ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ برکس میں شمولیت چاہتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں برکس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ترقی پذیر ملکوں اور گلوبل ساؤتھ کے نزدیک بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔

سال 2001 میں ’برکس‘ گروپ کی تشکیل ہوئی تھی جس میں برازیل، روس، بھارت اور چین شامل تھے۔ اس گروپ کا پہلا اجلاس 2006 میں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں منعقد ہوا تھا۔

ستمبر 2010 میں نیو یارک شہر میں ہونے والے برکس ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جنوبی افریقہ کو بھی اس کا مکمل رکن تسلیم کر لیا گیا اور اس طرح اس گروپ کا نام برک سے برکس ہو گیا۔ جنوبی افریقہ نے اپریل 2011 میں چین کے شہر سانیہ میں ہونے والے برکس اجلاس میں شرکت کی تھی۔

برکس ابھرتی ہوئی معیشتوں کا ایک ایسا گروپ ہے جو عالمی آبادی کے 41 فی صد اور عالمی جی ڈی پی کے 24 فی صد کی نمائندگی کرتا ہے۔ عالمی تجارت میں اس کا حصہ 16 فی صد ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ گروپ عالمی معیشت کا اصل انجن بن جائے گا اور 2050 میں عالمی معیشت پر اپنی بالادستی قائم کر لے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG