رسائی کے لنکس

برطانیہ: حالات معمول پر آنے لگے


Police officers form a cordon around a group of local people on Eltham High Street in London, Wednesday, Aug. 10, 2011. A large group of local men gathered in the area on Wednesday to deter looters and a large number of police officers was also present to
Police officers form a cordon around a group of local people on Eltham High Street in London, Wednesday, Aug. 10, 2011. A large group of local men gathered in the area on Wednesday to deter looters and a large number of police officers was also present to

برطانیہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مسلسل چار دنوں سے جاری بلوؤں اور لوٹ مار کے واقعات کے بعد گذشتہ رات پُر امن رہی۔ لندن، مانچیسٹر، لِورپول اوربرمنگھم میں جہاں تشدد کے واقعات میں دو بھائیوں سمیت تین پاکستانی نژاد برطانوی ہلاک ہوئے، پولیس کی بھاری نفری تعینات نظر آئی۔

لیبر پارٹی سےتعلق رکھنے والے برطانوی رکن ِپارلیمنٹ، خالد محمود نےجمعرات کو ’ وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے اپنے شہریوں کو پُر امن رہنے اور سکیورٹی کے اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت کو سراہتے ہوئے اُسے دانشمندانہ قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ قونصل جنرل ڈاکٹر سعید مہمند نے اپنے طور پر پاکستانی کمیونٹی کےساتھ ایک قریبی رابطہ رکھا ہوا ہےاوربرادری کو ہدایت یہی ہےکہ وہ حوصلے سےکام لیں۔

عائشہ اعجازخان لندن میں مقیم قانون داں ہیں، جِن کی بین الاقوامی معاملات پرگہری نظر ہے۔ اُنھوں نے پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان کو مستحسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کمیونٹی پہلے ہی پُر امن ہے۔

اُنھوں نےکہا کہ ہلاک ہونے والے ایک پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان کے والد کی جانب سے لوگوں میں اشتعال سے گریز روا رکھنے کی اپیل کو برطانوی راہنماؤں اور میڈیا سے زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔

اُن کے الفاظ میں: ’اُن کے خاندان کے لیے بہت ہی زیادہ افسوس ناک واقعہ ہےجِن کے جوان بیٹے ہلاک ہوئے۔ لیکن جس طرح سےطارق جہاں نے بیان دیا وہ متاثرکُن ہے۔ اِس حد تک کہ یہاں کے میڈیا کا کہنا ہے کہ طارق جہاں نے ڈیوڈ کیمرون سے بہتر لیڈرشپ دکھائی ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ اِس سے قبل جب بھی کسی پاکستانی کی بات سننےمیں آتی تھی یا تووہ دہشت گردی سے منسلک ہوتی تھی یا اِس طرح سے جِس سے پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہو۔ لیکن، اُن کے بقول، اِس مرتبہ، طارق جہاں اورجس دوسرے خاندان کا نوجوان فوت ہوا ہے، اُنھوں نے جس سلیقے سے بیانات دیے ہیں، وہ باعثِ تقویت ہیں، جِس سے یقینی طور پر مسلمانوں اور پاکستانیوں کا امیج بہتر ہوا ہے۔

برطانوی رکنِ پارلیمان خالد محمود نے بھی غم سے نڈھال والد طارق جہاں کےحوصلےکی داد دیتے ہوئے اُسے سنجیدہ بیان قرار دیا۔

خالد محمود نے بتایا کہ اب صورتِ حال بہتر ہورہی ہےاور پاکستانی کمیونٹی میں اب کسی طرح کا کوئی ڈر خوف موجود نہیں۔

اُنھوں نےکہا کہ انفرادی طورپرکسی کو ہدف نہیں بنایا جارہا۔ کمیونٹی کو ایسا کوئی خوف لاحق نہیں۔

برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ ہفتے جو بلوے نظر آئے وہ سیاست یا احتجاج سے جُڑے ہوئے نہیں ہیں، مگر اُن کے خیال میں اِن کا تعلق تشدد کو توقیر بخشنے کا کلچر ہے۔ إِس کی وضاحت بیان کرتےہوئےعائشہ اعجازخان نےکہا کہ اُن کے خیال میں یہ درست نہیں کہ میڈیا تشدد کوبڑھا چڑھا کرپیش کرتا یا اُسے’گلوریفائی‘ کرتا ہے۔

عائشہ خان کےخیال میں فرانس اورامریکہ کےمقابلےمیں برطانیہ کی پولیس بہت کمزور ہے۔ اُن کےبقول، یہی وجہ ہےکہ معاشرے میں جرائم پیشہ عناصرمضبوط ترہوتےچلےگئے۔

گذشتہ ہفتےکے روزسےشروع ہونے والے فسادات کےدوران برطانوی پولیس نے1100کےقریب افراد کوحراست میں لے لیا ہے۔

XS
SM
MD
LG