رسائی کے لنکس

عراق جنگ میں شمولیت غیر قانونی فیصلہ تھا: سابق برطانوی عہدیدار


ٹونی بلیئر عراق میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ (فائل فوٹو)
ٹونی بلیئر عراق میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ (فائل فوٹو)

پریسکوٹ نے کہا کہ "اٹارنی جنرل لارڈ گولڈاسمتھ کابینہ میں آئے اور زبانی یہ اعلان کیا کہ (جنگ میں جانا) قانونی ہے، لیکن انھوں نے اس کی کوئی دستاویز فراہم نہیں کی۔"

برطانیہ کے سابق نائب وزیراعظم جان پریسکوٹ نے کہا ہے کہ ان کا ملک 2003ء میں عراق پر حملہ کر کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔

پریسکوٹ اس جنگ کے وقت نائب وزیراعظم تھے۔

عراق کی جنگ میں برطانیہ کے کردار اور اس کی توجیہہ سے سات سالہ تحقیقاتی رپورٹ گزشتہ بدھ کو جاری کی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے جنگ سے آٹھ ماہ قبل ہی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے کہا تھا کہ "کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہوں،" اور بالآخر ایسے وقت میں جب امن کے حصول کی تمام کوششیں پوری نہیں ہوئی تھیں 45000 برطانوی فوجیوں کو جنگ میں بھیج دیا گیا۔

پریسکوٹ نے اتوار کو برطانوی اخبار "مرر" میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ جنگ کے جائز ہونے سے متعلق ان کے خیالات بدل گئے ہیں۔ انھوں نے بلیئر کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے وزیروں کو اس جنگ کی قانونی حیثیت پر بات کرنے سے منع کرتے رہے۔

"2004ء میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عننان نے کہا تھا کہ عراق میں حکومت کی تبدیلی اس جنگ کا اہم مقصد ہے تو یہ غیر قانونی ہے۔ انتہائی غم و غصے کے ساتھ میں اب سمجھتا ہوں کہ وہ (عننان) درست تھے۔"

پریسکوٹ نے مزید لکھا کہ انھیں جنگ میں جانے کے فیصلے اور اس کے بھیانک نتائج کے ساتھ اپنی باقی زندگی گزارنا ہوگی۔

بہت سے برطانوی چاہتے ہیں کہ بلیئر اس فوجی کارروائی کے فیصلے پر فوجداری مقدمے کا سامنا کریں کہ اس کی وجہ سے 179 برطانوی فوجی اور پھر بعد کے چھ سالوں میں ڈیڑھ لاکھ عراقی شہری مارے گئے۔

پریسکوٹ نے کہا کہ "اٹارنی جنرل لارڈ گولڈاسمتھ کابینہ میں آئے اور زبانی یہ اعلان کیا کہ (جنگ میں جانا) قانونی ہے، لیکن انھوں نے اس کی کوئی دستاویز فراہم نہیں کی۔"

پریسکوٹ نے بلیئر کے ناقد اور جنگ مخالف لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربن کی طرف سے اس جنگ میں ہلاک و زخمی ہونے والوں سے معذرت کی حمایت کی۔

XS
SM
MD
LG