رسائی کے لنکس

اعلیٰ سطحی برطانوی وفد کا دورہٴ کابل


برطانوی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کو برطانیہ کی نئی حکومت میں مستحکم بنیادوں پر دوستی نظر آئے گی جو اُن مسائل کے حل میں مدد دے گی جِس کا ہمیں اِس جگہ طویل عرصے سے سامنا رہا ہے

برطانیہ کی نئی حکومت کی تشکیل میں ابھی چند ہی ہفتے گزرے ہیں اور ایک اعلیٰ سطح کے برطانوی وفد نے ہفتے کے دِن افغان صدر حامد کرزئی اور بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلی میک کرسٹل سے افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر تبادلہٴ خیال کیا۔

برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے اِس دورے کو نئی آنے والی حکومت کی طرف سے صورتِ حال کا ایک جائزہ قرار دیا۔ لیکن، جیسا کہ وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ برطانوی افواج کی آئندہ پانچ برسوں کے دوران وطن واپسی کا آغاز ہوگا۔

رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی عوام قریب نومبر سے اِس فوجی تعیناتی کے بارے میں اب تشویش کا شکار ہیں۔

کابل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات میں مسٹر ہیگ الفاظ کے استعمال میں بے حد محتاط رہے۔

برطانوی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کو برطانیہ کی نئی حکومت میں مستحکم بنیادوں پر دوستی نظر آئے گی جو اُن مسائل کے حل میں مدد دے گی جِس کا ہمیں اِس جگہ طویل عرصے سے سامنا رہا ہے۔

لیکن، روزنامہ ‘ٹائمز آف لندن’ سے بات کرتے ہوئے نئے وزیرِ دفاع لائم فاکس نے کہا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ برطانوی فوجی جلد سے جلد وطن واپس ہوجائیں اور اِس سے مراد یہ ہے کہ افغان افواج کی ٹریننگ میں ممکنہ طور پر تیزی لائی جائے۔

اِسی دوران، بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان میں برطانوی افواج کے سابق کمانڈر رچرڈ کیمپ نے کہا کہ افغان فوجیوں کی ٹریننگ میں تیزی لانا ممکن تو ہو سکتا ہے لیکن اِس کی بھاری قیمت بھی چکانا ہوگی۔

اُنھوں نے کہا کہ اُن کی رائے میں ایسا کرنا قابلِ تعریف مقصد ہے۔ جتنی جلدی ہم ایسا کرسکیں گے اتنی ہی جلدی ہم طالبان کا صفایا کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے اور افغانستان سے ہماری واپسی ممکن ہوجائے گے۔ لیکن اِس کے لیے ہمیں مزید وسائل درکار ہیں۔

اُن کے الفاظ میں: ‘کیا اب ہم مزید فوجی فراہم کرنے کو تیار ہیں جو افغانستان کی فوج کی تربیت میں مدد دی سکیں؟ کیا ہم اِس کے لیے مزید وسائل فراہم کرنے کے لیے آمادہ ہیں ؟ اگر نہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ تربیتی عمل میں غالباً بہت زیادہ تیزی لائی جاسکتی۔’

برطانیہ کا افغانستان میں نیٹو فوجوں میں دوسراے بڑا دستہ ہے جِس میں بیشتر فوجی جنوب میں ہلمند میں تعینات ہے۔

افغانستان میں 2001ء سے برطانوی فوجی عملے کے 300ارکان ہلاک ہوچکے ہیں، اوربرطانیہ کی نئی مخلوط حکومت نے فوری طور پر دفاعی جائزے کا وعدہ کیا ہے۔

بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ اِس کے نتیجے میں کئی کٹوتیاں کی جائیں گی، جب کہ نئی انتظامیہ حکومت کے خطیر اور مسلسل بڑھتے ہوئے خسارے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کرے گی۔

XS
SM
MD
LG