رسائی کے لنکس

سری لنکا: راجا پکسے خاندان ابھی اقتدار کے کھیل سے باہر نہیں ہوا


سری لنکا کے سابق وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے (بائیں)، باسل راجا پکسے (دائیں) اور صدر گوتابایا راجا پکسے۔ ( فائل فوٹو)
سری لنکا کے سابق وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے (بائیں)، باسل راجا پکسے (دائیں) اور صدر گوتابایا راجا پکسے۔ ( فائل فوٹو)

سری لنکا کے سابق وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے الگ ہوئے جمعرات کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے لیکن ملک پر 20 برس تک حکمرانی کرنے والا راجا پکسے خاندان ابھی اقتدار سے باہر نہیں ہوا۔

سری لنکا میں اقتدار پر گرفت رکھنے والے راجا پکسے خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کے راستے بظاہر جدا ہوگئے ہیں لیکن اب بھی ان کا اثر و رسوخ اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہے۔

گزشتہ ماہ نو مئی کو جب حکمران جماعت کے حامیوں اور سری لنکا کی معاشی بد حالی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین آمنے سامنے آئے تو صدر گوتابایا راجاپکسے نے تصادم کے پیش نظر پولیس کو حکومتی حامیوں کو روکنے کے احکامات دیے تھے۔

ان احکامات کے باوجود یہ مظاہرے تصادم میں بدل گئے جن میں نو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے ۔ بعدازاں مظاہرین نے راجا پکسے خاندان اور ان کے حامیوں کی جائیدادوں اور ذاتی املاک پر حملے بھی شروع کردیے تھے۔

تصادم کے یہ واقعات سیاسی بحران کا اہم موڑ ثابت ہوئے۔ان واقعات کے بعد صدر گوتابایا راجاپکسے کے بڑے بھائی اور وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے نے اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔

نو مئی کو دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے وزیرِ اعظم مہندا راجا کے ایک مشیر نے انہیں ملک میں تصادم کے مناظر کی ویڈیوز دکھائیں۔خبر رساں ادارے'رائٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک مہندا راجا پکسے مستقبل سے متعلق اہم فیصلے کر چکے تھے۔

کھانے سے فراغت کے بعد مہندا راجا پکسے قیلولے کے لیے چلے گئے اور بیدار ہوئے تو انہوں نے شام پانچ بجے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کو حکمراں خاندان میں پہلی واضح دراڑ کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں سری لنکا میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کی شدت بڑھنا شروع ہوگئی تھی جس کے بعد صدر اور وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا تھا۔

مہندا، گوتابایا اور باسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ گہری وابستگی پائی جاتی تھی۔(فائل فوٹو)
مہندا، گوتابایا اور باسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ گہری وابستگی پائی جاتی تھی۔(فائل فوٹو)

'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق اپریل ہی سے صدر گوتا بایا نے اپنے بڑے بھائی اور وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا۔ تاہم صدر گوتابایا یا مہندا راجا پکسے نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

سیاسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے مہندا راجا پکسے نو مئی کو وزارتِ عظمی سے مستعفی ہوئے اور کئی دنوں تک مظاہرین کے غیض و غضب سے محفوظ رہنے کے لیے ایک نیول بیس میں پناہ گزین رہے۔

مہندا راجا پکسے کے استعفے کے بعد سری لنکا میں نئے وزیر اعظم رانل وکرمے سنگھے نے اقتدار سنبھالا۔ استعفے کا مطالبہ اگرچہ صدر سے بھی کیا گیا تھا لیکن اپنی سیاسی غیرمقبولیت کے باوجود صدر گوتابایا تاحال اقتدار میں ہیں اور ان کے تیسرے بھائی باسل راجا پاکسے کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی کی سربراہی بھی ہے۔

'رائٹرز' کے مطابق مہندا راجا پکسے کی کابینہ میں شامل سابق وزرا کا کہنا ہے کہ ایک بھائی کو پسپا ہونا پڑا ہے لیکن گزشتہ ایک ماہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود سری لنکا میں راجا پکسے خاندان کا اقتدار ختم نہیں ہوا۔

راجا پکسے خاندان کا اقتدار

سری لنکا کے جنوب میں بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریتی آبادی والے علاقے میں نو بہن بھائیوں پر مشتمل راجا پکسے سری لنکا کاایک نمایاں سیاسی خاندان ہے۔ 2005میں اس خاندان سے تعلق رکھنے والے مہندا راجا پکسے ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے اور 2015 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران ان کے بھائی اور دیگر قریبی عزیز مختلف اہم سرکاری عہدوں پر رہے۔

موجودہ صدر گوتابایا راجا پکسےخاندان میں پانچویں نمبر پرہیں۔ انہوں نے 1971 میں سری لنکا کی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اپنی سروس کے دوران انہوں نے تامل باغیوں کی شورش کے خلاف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا تھا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد گوتابایا امریکہ منتقل ہوگئے تھے اور برسوں بعد 2005 میں سری لنکا واپس آئے اور اپنے بھائی مہندا کی حکومت میں سیکریٹری دفاع کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ اس دوران انہوں نے سری لنکا میں جاری خون ریز خانہ جنگی ختم کرنے کی کوششوں کی نگرانی کی جس میں مجموعی طور پر 80 ہزار سے ایک لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔

'رائٹرز' کے مطابق صدر گوتا بایا نے اپریل سے ہی وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا۔
'رائٹرز' کے مطابق صدر گوتا بایا نے اپریل سے ہی وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے سری لنکا میں ہونے والی خانہ جنگی میں شریک فریقوں پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا اور گوتابایا کو دورانِ جنگ مبینہ ظالمانہ کارروائیوں کی بنا پر ملک میں عدالتی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاہم ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے اور سیاسی استثنیٰ کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمات ختم کردیے گئے۔

راجاپکسے خاندان سےمتعلق مبینہ کرپشن کے الزامات اور اسکینڈل سامنے آنے کے بعد مہندا راجاپکسے کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کی کابینہ کے سابق وزیر میتھر پالا سری سینا صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے آئین میں دو سے زیادہ مرتبہ صدر بننے پر پابندی شامل کر دی۔

سن 2019 میں سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے موقع پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد ملک میں قوم پرستی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں راجا پکسے خاندان ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔

دو مرتبہ سے زائد صدر منتخب ہونے کی پابندی کی وجہ سے مہندا راجا پکسے 2019 میں صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اس لیے گوتابایا راجاپکسے نے صدارتی الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت حاصل کرکے کامیاب ہوئے۔ ان کی جماعت 'پودوجانا پرامونا' پارٹی نے حزبِ اختلاف کا صفایا کردیا اور اگلے ہی برس گوتابایا کے بھائی مہندا راجا پکسے پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتیجے میں وزیرِ اعظم بن گئے۔ لیکن معاشی بحران کی وجہ سے انہیں گزشتہ ماہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔

راجاپکسے برادران کے تعلقات

راجا پکسے خاندان کے ان نو بہن بھائیوں میں مہندا، گوتابایا اور باسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ گہری وابستگی پائی جاتی تھی۔

پہلے بھی 2015 میں مہندا راجا پکسے کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد باسل نے اپنے خاندان کی سیاسی پارٹی پودوجانا پرامونا(ایس ایل پی پی) کو دوبارہ منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا اور اب بھی انہوں نے پارٹی کو یکجا رکھا ہوا ہے۔

باسل راجاپکسے۔
باسل راجاپکسے۔

سال2019 میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد ایک بار پھر راجا پکسے خاندان کو انتخابات میں بھاری اکثریت ملی تھی جس کے بعد مہندا راجا پکسے وزیرِ اعظم بنے۔

اس انتخابی کامیابی کے لیے باسل راجا پکسے کی جانب سے کھڑا کیا گیا تنظیمی ڈھانچا بہت اہم ثابت ہوا تھا۔ اسی لیے حکومت سازی کے بعد باسل راجاپکسے کو 2021 میں وزارتِ خزانہ کا قلم دان دیا گیا تھا لیکن اس وقت تک معاشی حالات نے نئی کروٹ لینا شروع کردی تھی۔

بھائی یا پارٹی؟

مہندا راجاپکسے کے استعفے کے بعد گزشتہ ماہ سری لنکا کے نئے وزیر اعظم رانل وکرمے سنگھے نے اقتدار سنبھالا۔ وکرمے سنگھے اسمبلی میں اپنی جماعت یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے واحد رکن ہیں۔ حکومت کے لیے ان کا پورا انحصار سری لنکا پودوجانا پرامونا (ایس ایل پی پی) پر ہے۔ گوتابایا کی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت اور مہندا کے مستعفی ہونے کے بعد باسل راجا پکسے کی گرفت پارٹی پر مزید مضبوط ہوگئی ہے۔

اس وقت وکرمے سنگھے کی حکومت کو معاشی بحران حل کرنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کی مدد درکار ہے۔ لیکن کسی بھی بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے حکومت کو پہلے اصلاحات کرنا ہوں گی جس کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے ان کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔

وکرمے سنگھے کے لیے حکومت کے تسلسل اور اصلاحات کے لیے ایس ایل ایل پی کو ساتھ لے کر چلنا ناگزیر ہے۔ لیکن حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوامی سطح پر مسلسل صدر گوتابایا کے اختیارات محدود کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔

اگرچہ جمعرات کو باسل گوتابایا پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوچکے ہیں لیکن موجودہ حالات میں پارٹی سربراہ کی حیثیت سے باسل اپنے بڑے بھائی کا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ سری لنکا میں راجا پکسے خاندان کے مستقبل کو اس سوال کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

سری لنکا میں تبدیلیوں پر پڑوسی ملک بھارت اور ایشیا کی بڑی معاشی قوت چین نے بھی گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ بھارت تاریخی طور پر سری لنکا میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہا ہے اور چین نے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو' کے تحت سری لنکا میں انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار جیادیوا یونگوڑا کے مطابق ان حالات میں وزیرِ اعظم وکرمے سنگھے کو مقامی سطح پر سیاسی مطالبات اور معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے عالمی سطح پر قرض اور مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے مطالبات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا۔

سال2019 میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد راجا پکسے خاندان کو ایک بار پھر انتخابات میں بھاری اکثریت ملی تھی جس کے بعد مہندا راجا پکسے وزیرِ اعظم بنے تھے۔
سال2019 میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد راجا پکسے خاندان کو ایک بار پھر انتخابات میں بھاری اکثریت ملی تھی جس کے بعد مہندا راجا پکسے وزیرِ اعظم بنے تھے۔

اس کے لیے ان کا سارا انحصار باسل راجا پکسے پر ہے۔ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا اعلان کرنے کے بعد باسل راجاپکسے نے کہا ہے کہ وہ سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی اور مستعفی وزیرِ اعظم مہندا تاحال پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ لیکن پارٹی میں ان کا اثر رسوخ برقرار ہے اور وہ کسی بھی نئی قانون سازی کے لیے مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

'رائٹرز' کے مطابق باسل راجا پکسے نے مہندا راجا پکسے کے استعفے کے بعد خاموشی اختیار کررکھی ہے اور رابطہ کرنے پر بھی بات کرنے سے منع کرچکے ہیں۔

البتہ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ باسل کو پارٹی پر پورا کنٹرول حاصل ہے۔ وہ اپنے بڑے بھائی اور صدر گوتابایا کی ہر ممکن مدد کریں گے لیکن کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس کی سیاسی قیمت ان کی پارٹی کو ادا کرنا پڑے۔

مبصرین کے مطابق اگرچہ راجا پکسے خاندان کی اقتدار پر گرفت کمزور ضروری ہوئی لیکن ختم نہیں ہوئی اور اس خاندان میں طاقت کا مرکز اب چھوٹے بھائی باسل کی جانب منتقل ہورہا ہے۔

(اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔)

XS
SM
MD
LG