رسائی کے لنکس

بی جے پی کے رہنماؤں کے متنازع بیانات، حکومت کی صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو رہنماؤں کی جانب سے پیغمبرِ اسلام سے متعلق مبینہ متنازع بیانات کے بعد مسلم ممالک کے شدید احتجاج اور باہمی تعلقات کے متاثر ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر بی جے پی کی مرکزی حکومت صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

بی جے پی نے اپنے ترجمانوں کو نئی ہدایات جاری کی ہیں اور کہا ہے کہ وہ ٹی وی مباحثوں میں صبر و تحمل سے کام لیں۔ وہیں دوسری طرف حکومت نے مسلم ممالک میں تعینات سفیروں اور ہائی کمشنرز کے نام چھ نکاتی میمورنڈم ارسال کیا ہے۔

بی جے پی قیادت کی جانب سے جاری ہدایت کے مطابق اب صرف آفیشل ترجمان اور پینل میں شامل لوگ ہی ٹی وی مباحثے میں بی جے پی کی نمائندگی کر سکیں گے۔ پارٹی کے میڈیا سیل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ٹی وی مباحثوں میں شرکت کرنے والے ترجمانوں کے ناموں کا فیصلہ کرے۔

پارٹی قیادت کی ہدایت کے مطابق کسی بھی ترجمان کو مباحثے کے دوران مذہبی باتوں اور علامتوں کے ذکر کی اجازت نہیں ہو گی۔

ان سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی کے بہکاوے میں آکر مشتعل نہ ہوں۔ اپنی زبان کو قابو میں رکھیں اور پارٹی کے اصولوں سے انحراف نہ کریں۔

اس کے علاوہ انہیں یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹی وی مباحثوں میں جانے سے قبل مجوزہ موضوع کا مطالعہ کریں۔

حکومت کی کوشش ہے کیا؟

بعض مبصرین نے بی جے پی کی ان ہدایات کا خیرمقدم کیا ہےلیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ہدایات بہت پہلے جاری ہونی چاہیے تھیں۔ اگر پہلے ہی شعلہ بیان ترجمانوں پر کنٹرول کیا گیا ہوتا تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔

تجزیہ کار ابھے کمار مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بی جے پی رہنما طویل عرصے سے ایسے بیانات دے رہے تھے جب کہ سیکولر افراد کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی تھی۔ اب تک بی جے پی یہ سمجھتی رہی کہ اس ملک میں اقلیت کمزور اور اپوزیشن بکھری ہوئی ہے۔ لہٰذا اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

ان کے مطابق اب بی جے پی کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ دنیا ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں کوئی بات چھپائی نہیں جا سکتی۔ لہٰذا اپنے ترجمانوں پر قابو پانا ضروری ہے ورنہ کہیں اس سے بھی زیادہ نقصان نہ ہو جائے۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت کی حکومت نے اگر چہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے احتجاج کو مسترد کر دیا ہے لیکن وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جائے۔ اس کے لیے او آئی سی کے ہر رکن ملک میں تعینات سفیر اور ہائی کمشنر کو ایک چھ نکاتی میمورنڈم ارسال کیا گیا ہے۔

خلیجی ممالک کے سفیروں کو نئی ہدایات

رپورٹس کے مطابق قطر اور کویت کی جانب سے بھارت کے سفیروں کو طلب کرکے احتجاج کیے جانے کے بعد پانچ جون کو ارسال کردہ اس میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے پر پیدا ہونے والی صورتِ حال پر نظر رکھیں اور اس سے نئی دہلی کو فوری طور پر مطلع کریں۔

اس میمورنڈم کو سیکریٹری خارجہ ونے کواترا نے حتمی شکل دی ہے اور اسے وزارتِ خارجہ میں خلیج ڈویژن کی جانب سے ارسال کیا گیا ہے۔

بھارت کے سفیروں سے کہا گیا ہے کہ اگر وہاں کی حکومت ان کو طلب کرے تو وہ انہیں بتائیں کہ بھارت تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بیان بھی جاری کریں۔

حکومت نے کہا ہے کہ وہ اپنی میزبان حکومتوں کو یہ بھی بتائیں کہ مفاد پرستوں کی جانب سے جو کہ باہمی تعلقات کے خلاف ہیں، عوام کو اکسا یا جا رہا ہے۔ بھارت اور دوسری حکومتوں کو اس بارے میں متحد ہو کر کام کرنا پڑے گا۔مبصرین کے مطابق یہ اشارہ پاکستان کی جانب ہے۔

پاکستان کے خارجہ سیکریٹری سہیل محمود نے منگل کو اسلام آباد میں او آئی سی کے تمام سفیروں سے ملاقاتیں کی تھیں اور انہیں بی جے پی کے دو رہنماؤں کے متنازع بیانات کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال سے آگاہ کیا تھا۔

کانپور میں بی جے پی رہنما گرفتار

اسی دوران اترپردیش (یو پی)کے شہر کانپور میں پولیس نے بی جے پی کے یوتھ ونگ کے ایک رہنما کو پیغمبرِ اسلام کے خلاف مبینہ متنازع سوشل میڈیا پوسٹ گرفتار کر لیا ہے۔

کانپور کے پولیس کمشنر وجے مینا کے مطابق ہرشت سری واستو نامی شخص اپنی پوسٹ سے شہر کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کرے گی جو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے گا۔

نوپور شرما کو پولیس کی سیکیورٹی فراہم

مبینہ متنازع بیانات کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کے دوران گزشتہ جمعے کو تشدد ہوا تھا جس میں تقریباً 40 افراد بھی زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے اس سلسلے میں تین مقدمات درج کیے اور متعدد افراد کو گرفتار کیا۔ مقامی افراد کا الزام ہے کہ پولیس یک طرفہ طور پر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ ویڈیو فوٹیج میں نظر آنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

پولیس نے نوپور شرما کے خلاف بھی متعدد مقامات پر مقدمات درج کیے ہیں جب کہ ان کو دھمکی ملنے کی شکایت پر دہلی پولیس نے انہیں سیکیورٹی فراہم کر دی ہے۔

’احتجاج نہ ہوتا تو کسی کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہوتی‘

ابھے کمار مشرا کانپور کے بی جے پی رہنما کی گرفتاری کو بھی مسلم ممالک میں احتجاج سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر احتجاج نہ ہوتا تو کسی کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق احتجاج کی وجہ سے ہی بی جے پی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوئی ہے۔

مبصرین کے مطابق اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی کی حمایت کی جانی چاہیے لیکن یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آئندہ ایسی بیان بازی نہ ہو۔

ابھے کمار بھی کہتے ہیں کہ ملک کے انصاف پسند طبقات کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے عناصر کے خلاف قانونی راستہ اختیار کریں۔ پر امن انداز میں احتجاج کریں اور بی جے پی پر زور ڈالیں کہ وہ اپنی پالیسی تبدیل کرے۔ اگر بی جے پی ایک شخص کو پارٹی سے باہر کر دیتی ہے اور ایسے ہی 100 افراد کو پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے، تو اس سے کچھ نہیں بدلے گا۔

القاعدہ کی دھمکی

ممبئی کی پولیس نے بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کو 22 جون کو طلب کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔ ممبئی کی ایک تنظیم رضا اکیڈمی نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔

اسی دوران شدت پسند تنظیم القاعدہ نے ایک خط جاری کرکے دھمکی دی ہے کہ وہ مبینہ متنازع بیانات کے خلاف بھارت کے بڑے شہروں دہلی اور ممبئی کے ساتھ ساتھ ریاست اترپردیش اور گجرات کے شہروں میں خود کش حملے کرے گی۔

القاعدہ نے ہندوؤں کی مذہبی علامت کہلانے والے رنگ کا ذکر کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ زعفرانی دہشت گردوں کو دہلی، ممبئی اور یو پی اور گجرات کے شہروں میں اپنے خاتمے کا انتظار کرنا چاہیے۔

اسد الدین اویسی کی تنقید

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بی جے پی نے اس وقت نوپور شرما کے خلاف کارروائی کی جب قطر، سعودی عرب اور بحرین میں احتجاج ہوا۔

اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ نریندر مودی بھارت کے مسلمانوں کی نہیں خلیج کے ممالک کی سنتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG