رسائی کے لنکس

بی آر ٹی اور مالم جبہ اسکینڈلز تحریک انصاف حکومت کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہیں؟


پشاور میں کئی سال سے زیر تعمیر بی آر ٹی کی عدم تکمیل نے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
پشاور میں کئی سال سے زیر تعمیر بی آر ٹی کی عدم تکمیل نے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

پاکستان میں احتساب کے ادارے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے بی آر ٹی اور مالم جبہ ریزورٹس منصوبوں میں مبینہ کرپشن پر ریفرنس کی تیاری کے بیان نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

ان دونوں منصوبوں میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، جس سے حکمران جماعت ہمیشہ انکار کرتی آئی ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں انسدادِ بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب کے دوران چیئرمین نیب نے عدالتوں کی جانب سے جاری حکم امتناع کو ریفرنسز جمع کرانے میں تاخیر کی وجہ قرار دیا۔

ان کے بقول، جس دن عدالتوں سے حکم امتناع ختم ہو گا، ریفرنس فائل کر دیے جائیں گے۔

یہ دونوں منصوبے ہیں کیا اور معاملہ ہے کیا؟

بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)

لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بس سروس کے قیام کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخوا میں انتہائی کم لاگت سے ایسا ہی منصوبہ بنانے کا اعلان کیا۔

پشاور میں بی آر ٹی کا منصوبے پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت میں 29 اکتوبر 2017 کو کام شروع ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر منصوبے کا تخمینہ 48 اعشاریہ چار ارب روپے لگایا گیا اور حکومت کی طرف سے اس منصوبے کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا جو تاحال مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے کچھ عرصہ قبل اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 23 مارچ 2019ء کی ڈیڈ لائن دی تھی، جس کے بعد جون 2019ء کی تاریخ دی گئی۔ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کے باعث اس کی لاگت 30 فی صد بڑھ چکی ہے، جب کہ نو بار ڈیزائن بھی تبدیل کیا جا چکا ہے۔

صرف رواں سال چھ بار منصوبے کے افتتاح کی تاریخیں دی گئیں لیکن اب تک اس منصوبے کے صرف چند اسٹیشن ہی مکمل ہو سکے ہیں۔

تقریباً 26 کلو میٹر پر مشتمل پشاور بس منصوبے کا روٹ چمکنی سے شروع ہو کر خییر بازار، صدر اور پھر یونیورسٹی روڈ سے ہوتا ہوا حیات آباد پر ختم ہوتا ہے۔

جب اس منصوبے پر کام شروع ہوا تو اس وقت موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان حزب اختلاف میں موجود تھے۔ لیکن خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کی حکومت تھی۔ یہ منصوبہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی جانب سے لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس منصوبوں کی تعمیر کے بعد شروع ہوا جس پر بالترتیب تقریباً 30 ارب اور 44 ارب روپے خرچ کیے گئے جو پشاور بس منصوبے کے مقابلے میں کم ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان دھرنوں کے دوران پنجاب اور اسلام آباد راوالپنڈی میٹرو منصوبوں کو مہنگا قرار دیتے ہوئے وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

رواں سال اپریل میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بی آر ٹی منصوبے کے خلاف نیب میں درخواست جمع کرائی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ منصوبے کی لاگت اب 70 ارب سے تجاوز کر گئی ہے اور مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔

حکومت مقررہ مدت میں منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ منصوبے کی لاگت ساڑھے 39 ارب رکھی گئی تھی اور تکمیل کی مدت چھ ماہ تھی۔ منصوبے کی عدم تکمیل سے پشاور کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ نیب کے آرٹیکل نو کے تحت منصوبے کی لاگت میں اضافہ قانونی جرم ہے۔ آرٹیکل 10 کے تحت یہ قابل سزا جرم ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے پرویز خٹک کی قیادت میں اس منصوبے میں کرپشن کی۔ بی آر ٹی منصوبے کے ذریعے من پسند شخصیات کو خلاف ضابطہ نوازا گیا۔

چند روز قبل شہریوں کی جانب سے منصوبے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر عدالت نے اپنے فیصلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے کہا کہ وہ 45 روز میں اس منصوبے کی انکوائری مکمل کرے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔

گزشتہ سال جولائی میں بھی یہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں آیا تھا اس وقت عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے قومی احتساب بیورو سے کہا تھا کہ اس منصوبے کی مکمل تحقیقات کرے کیونکہ اس میں کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ اس فیصلے میں بھی مقبول کولسنز کا ذکر تھا کہ یہ بلیک لسٹڈ کمپنی ہے۔

جولائی 2018 کے فیصلے میں بھی کہا گیا تھا کہ ابتدائی طور پر یہ منصوبہ 49 اعشاریہ تین بلین روپے میں مکمل ہونا تھا اور بعد میں یہ 67 اعشاریہ نو بلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔

پیر کو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے انکشاف کیا کہ منصوبے کی لاگت 117 ارب تک پہنچ چکی ہے۔

اس منصوبہ میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ جو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بھی لکھی گئی کہ یہ پراجیکٹ کسی ویژن اور منصوبہ بندی کے بغیر جلد بازی میں شروع کیا گیا۔ اس کے لیے پلان مکمل نہ تھا جس کی وجہ سے اس میں بار بار تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ جیسے بعض مقامات پر جہاں بسوں نے ٹرن لینا تھا وہاں سڑک کی چوڑائی اس قدر کم تھی کہ بسوں کا مڑنا ناممکن تھا، جس کی وجہ سے ان مقامات کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

اس منصوبے میں کرپشن کی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں اور بی آر ٹی منصوبے کے چیف ایگزیکٹو مستعفی ہو چکے ہیں۔ جب کہ کئی ڈائریکٹرز بھی عہدوں سے ہٹائے جا چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وزیر شوکت یوسف زئی کے مطابق ابھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا لہذا اس پر تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔

چیئرمین نیب کا بھی کہنا ہے کہ مختلف عدالتوں کی طرف سے حکم امتناع ہے جس کی وجہ سے ریفرنس فائل نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اس معاملے پر 45 دن میں ایف آئی اے کو تحقیقات کا کہا ہے جس کے خلاف خیبر پختونخوا حکومت نے سپریم کورٹ جانے کا عندیہ دیا ہے۔

مالم جبہ اسکینڈل

رواں سال مارچ میں قومی احتساب بیورو خیبر پختونخوا نے مالم جبہ ریزورٹ پراجیکٹ کے ٹھیکے کو مبینہ طور پر بدنیتی پر مبنی اور محکمہ جنگلات کی قیمتی اراضی ہتھیانے کا ایک میگا فراڈ قرار دیتے ہوئے اپنی تحقیقات مکمل کر کے کیس نیب ہیڈ کوارٹر بھجوا دیا تھا۔

مالم جبہ سکینڈل پر چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے 9 جنوری 2018 کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔

نیب خیبر پختونخوا نے انکوائری کے بعد اسے انوسٹی گیشن میں تبدیل کیا اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ، موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک، خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر عاطف خان ،سابق چیف سیکرٹری اور وزیر اعظم کے موجودہ سیکرٹری اعظم خان، موجودہ وزیر اعلیٰ اور اس وقت کے صوبائی وزیر سیاحت و کھیل محمود خان اور چیئرمین خیبرپختونخوا اسپورٹس بورڈ محسن عزیز کے خلاف تحقیقات کیں۔

اس کیس میں سوات کے علاقے مالم جبہ میں 275 ایکڑ سرکاری اراضی 2014 میں تفریحی مقامات کے لیے لیز پر دی گئی جس میں مبینہ طور پر بے قاعدگیوں اور اقربا پروری کے الزامات لگے تھے۔

مالم جبہ اراضی کی لیز کا اشتہار 15 سال کے لیے دیا گیا تاہم کنٹریکٹ کے بعد لیز کو 32 سال تک کے لیے بڑھا دیا گیا تھا اور جس کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا وہ اس کے پاس اس کی اہلیت نہیں تھی۔ لیکن اس کیس میں بھی ریفرنس ابھی تک دائر نہیں ہو سکا ہے۔

اس کیس میں وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان اور وزیردفاع پرویز خٹک اپنے بیانات بھی نیب کو ریکارڈ کروا چکے ہیں اور نیب کے مطابق ان کیسز میں ان کے پاس کافی شواہد موجود ہیں، لیکن چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ ریفرنسز تیار ہیں لیکن حکم امتناع کی وجہ سے دائر نہیں ہو سکتے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب عدالتیں حکم امتناع ختم کریں گی اور ریفرینس احتساب کورٹ میں جائیں گے تو وہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو گی۔

XS
SM
MD
LG