جنوب مشرقی ایشیا میں واقع مسلم اکثریتی ملک برونائی دارالسلام میں اسلامی قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں۔
نئے قوانین کے تحت زنا کے مرتکب افراد اور ہم جنس پرستوں کو جنسی تعلق ثابت ہونے پر سنگساری جب کہ چوری پر مجرم کو ہاتھ کاٹنے کی سزا ہوسکے گی۔
برونائی میں ان قوانین کے نفاذ کا اعلان ابتدائی طور پر 2014ء میں کیا گیا تھا جن کا مرحلہ وار نفاذ کیا جا رہا تھا۔
برونائی کے وزیرِ اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سخت سزاؤں پر مبنی قوانین 3 اپریل سے نافذ العمل ہوں گے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق شریعہ قوانین ایسے جرائم کے خلاف ہیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اور یہ قوانین ہر فرد کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، مکمل آزادی اور تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔
سخت سزاؤں کا نفاذ
برونائی دارالسلام میں مئی 2014ء میں اسلامی شریعت کے مطابق سزاؤں کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔
ابتدائی قوانین کے تحت رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے اور جمعے کی نماز ادا نہ کرنے والوں کو جرمانے اور جیل کی سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔
بدھ کو نافذ ہونے والے نئے قوانین کے تحت چوری ثابت ہونے پر مجرم کو کم سے کم کوڑوں اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی نافذ کردی گئی ہے۔
ہم جنس پرستی کے تحت جنسی تعلق ثابت ہونے اور زنا کے مرتکب افرد کو سنگساری یعنی پتھر مار کر قتل کرنے کی سزائیں بھی نافذ ہو گئی ہیں۔
امریکہ کا اظہارِ تشویش
اسلامی قوانین کے نفاذ پر امریکہ سمیت کئی مغربی ملکوں نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان رابرٹ پلاڈینو نے کہا ہے کہ غیر انسانی اور تشدد پر مبنی سزائیں قطعی طور پر قابلِ قبول نہیں اور یہ اقدام انسانی حقوق کے چارٹرکے منافی ہے جس پر برونائی نے بھی دستخط کیے ہیں۔
برونائی میں اسلامی قوانین کے نفاذ پر اقوامِ متحدہ نے بھی سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور ان قوانین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
برونائی کے سلطان کون ہیں؟
برونائی معدنی وسائل سے مالا مال جنوب مشرقی ایشیا کا ایک چھوٹا سے ملک ہے جس کی کل آبادی صرف ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کی دنیا بھر میں جائیدادیں اور پرتعیش ہوٹل ہیں۔
برونائی کی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری ایک اعلامیے میں 72 سالہ بادشاہ نے کہا ہے کہ وہ لوگوں سے یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ شریعہ قوانین کے نفاذ کے ان کے فیصلے سے متفق ہوں گے یا اسے قبول کریں گے۔ لیکن ان کے بقول اتنا ہی کافی ہوگا کہ دنیا ان کی قوم کا اسی طرح احترام کرے جیسا کہ برونائی دوسروں کا کرتا ہے۔