رسائی کے لنکس

پشاور میں مسیحیوں کے قبرستان کے لیے جگہ کی کمی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اگسٹن جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صورتحال کی سنگینی کا تذکرہ کرتے بتایا کہ اب مردوں کو دفن کرنے کے لیے پرانی قبروں کو کھود کر ہی استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور میں آباد مسیحی برادری کو اپنے انتقال کر جانے والے لوگوں کی تدفین کے سلسلے میں مسئلہ درپیش ہے کیونکہ شہر میں واقع مسیحیوں کے لیے مختص دو قبرستانوں میں مردوں کو دفن کرنے کے لیے جگہ ختم ہو چکی ہے۔

شہر میں گورا قبرستان اور وزیرباغ قبرستان مسیحیوں کے لیے مخصوص تھے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ بھی دہائیوں قبل مختص کیے گئے تھے۔

مسیحی برادری کے ایک سرکردہ راہنما اگسٹن جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صورتحال کی سنگینی کا تذکرہ کرتے بتایا کہ اب مردوں کو دفن کرنے کے لیے پرانی قبروں کو کھود کر ہی استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

"جتنے دستیاب قبرستان ہیں اس میں جگہ کم پڑ گئی ہے مجبوراً پرانی قبروں کو کھود کے (مردوں کو دفن کر رہے ہیں)، اس میں کبھی کپڑے نکلتے ہیں کبھی اعضا نکل آتے ہیں ان کے جن کو عرصہ پہلے دفنایا گیا تھا۔"

ان کا کہنا تھا کہ جس حساب سے آبادی بڑھی ہے اس تناسب سے اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پشاور میں مسیحی برادری کے لگ بھگ 30 ہزار افراد مقیم ہیں۔ پشاور میں آباد مسیحیوں کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔

اگسٹن جیکب کا کہنا تھا کہ حکومت سے بھی اس مسئلے پر بات چیت ہوئی ہے لیکن حکام انھی شہر سے باہر جگہ دینے کی بات کرتے ہیں جو کہ مسیحی برادری کی مشکلات میں مزید اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔

"اگر وہ جگہ دیتے ہیں تو پشاور سے باہر دیتے ہیں تو آج کل کو پتا ہے کہ جو معاشی حالات ہیں لوگوں کے لیے زندہ رہنا بھی مشکل ہے اور مرگ کے اخراجات برداشت کرنا بھی مشکل ہے۔ تو ہمی شہر کے اندر جگہہ چاہیے جہاں لوگوں کی رسائی آسان ہوسکے۔"

خیبر پختونخواہ کی حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ مسائل ان کے سامنے لائے گئے ہیں جسے جلد حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG