رسائی کے لنکس

برما الیکشن: عوام کا انحصار غیر ملکی خبروں پر


برما الیکشن: عوام کا انحصار غیر ملکی خبروں پر
برما الیکشن: عوام کا انحصار غیر ملکی خبروں پر

برما کے انتخابات کی نیوز کوریج کے موضوع پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتوار کی ووٹنگ کے قبل مقامی میڈیا میں غیر سرکاری امیدواروں اور پارٹیوں کے بارے میں بہت کم خبریں موجود ہیں۔ تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ برمی عوام کے لیے بین الاقوامی ریڈیو ہی خبروں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

سلوواکیہ میں قائم میمو 98 نامی میڈیا اور ریسرچ گروپ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ عام انتخابات سے قبل برما میں خبروں کی فراہمی پر سرکاری کنٹرول کےمیڈیا کا مکمل غلبہ ہے۔

تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برما میں امیدواروں، عہدے داروں اور پرائیویٹ میڈیا کے سلسلے میں کی جانے والی رپورٹنگ میں تنوع انتہائی حد تک کم ہے۔

بنکاک سے جمعے کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری ٹیلی ویژن کی خبروں میں صرف اہم فوجی راہنماؤں کو جگہ دی جاتی ہے۔ میاویدی ٹیلی ویژن کے نیوز پروگراموں کا تقریباً 90 فی صد وزیر اعظم تھین سین پر مرکوز ہوتا ہے۔ جب کہ بقیہ بچ جانے والا وقت ایک اور سینیئر لیڈر تھان شو پر صرف کردیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خبروں سے متعلق میڈیا پر کئی طرح کی پابندیاں اور بھاری سینسر شپ عائد ہے۔

تنظیم میمو 98 کے ایک تجزیہ کار مارک مراکاکہتے ہیں کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی مقامی میڈیا تک رسائی بہت محدود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر امیدواروں کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ میرا مطلب ہے وہ کسی طرح سے بھی اظہار رائے کی آزادی کےاستعمال کے قابل نہیں ہیں۔ مجموعی طورپر برما میں لوگ سرکاری میڈیا کی خبروں پر انحصار کررہے ہیں ۔ سادہ لفظوں میں بدقسمتی سے ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں جن سے انہیں امیدوار چننے میں اپنا ذہن بنانے میں مدد مل سکے۔

اتوار کے انتخابات میں 37 پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے تین ہزار سے زیادہ امیدوار حصہ لے رہے ہیں جب کہ ووٹ ڈالنے کے اہل افراد کی تعداد دو کروڑ 90 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ 20 سے زیادہ سیاسی جماعتیں، جن میں آنگ ساں سوچی کی زیر قیادت حزب اختلاف کی اہم پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی بھی شامل ہے، سخت انتخابی قوانین کے تحت نااہل قرار دی جاچکی ہیں۔

برما میں میمو 98 کے کوآرڈی نیٹر زاؤ ون کہتے ہیں کہ خبروں تک محدود رسائی نے بہت سے برمیوں کو غیر ملکی ریڈیو نشریات پر انحصار پر مجبور کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگ جو ریڈیو سن سکتے ہیں ، وہ ہے وائس آف امریکہ، بی بی سی اور ریڈیو فری ایشیا یا ڈیموکریٹک وائس آف برما ریڈیو۔ ریڈیو سننا آسان ہے ، چنانچہ وہ ریڈیو کے ذریعے تمام معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ جہاں تک ٹیلی ویژن کی بات ہے تو رسائی بہت محدود ہے۔ ہر طرح کے انٹرنیٹ تک رسائی بھی بہت محدود ہے۔ اس کے لیے آپ کو انٹرنیٹ کیفے جانا ہوتاہے۔ حکومت مخالف گروپس کی ویب سائٹس تک تو آپ کسی بھی وقت نہیں پہنچ سکتے ۔

اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں انٹرنیٹ تک رسائی نمایاں طورپر محدود کردی گئی ہے اور بہت سی غیر ملکی ویب سائٹس تک رسائی کی کوشش کا نتیجہ ناکامی کی شکل میں نکلتا ہے۔ حکومت انتخابات کی کوریج کے لیے غیر ملکی نامہ نگاروں کو ویزے جاری کرنے سے بھی انکار کرچکی ہے۔

سیاسی قیدیوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز نے کہا ہے کہ 40 افراد کو میڈیا سے منسلک سرگرمیوں کی بنا پرجیل بھیج دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG