رسائی کے لنکس

برما کی اہم سیاسی جماعتوں پر ایک نظر


برما میں یکم اپریل کو پارلیمان کی 48 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ انتخابات میں شریک ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کا تعارف ذیل میں درج ہے:

نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی

اس جماعت کی سربراہ امن کے نوبیل انعام کی حامل خاتون سیاست دان آنگ سان سوچی ہیں جنہوں نے اس کی داغ بیل 1988ء کی مقبول عوامی بغاوت کے بعد ڈالی تھی۔ نیشنل لیگ نے 1990ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات بھاری اکثریت سے جیت لیے تھے لیکن ملک کی فوجی جنتا نے جماعت کے رہنمائوں کو اقتدار سونپنے سے انکار کردیا تھا۔ نیشنل لیگ نے 2010ء میں ہونے والے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی بنیاد پر اسے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ یکم اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں لیگ نے 44 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

یونین سالڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی

یہ برما کی موجودہ حکمران جماعت ہے جس کی بنیاد موجودہ صدر تھین سین اور برما کی کی فوجی جنتا کے دیگر اراکین نے ڈالی تھی۔ اس جماعت نے 2010ء کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی تھی۔ اس جماعت نے ضمنی انتخاب میں 45 نشستوں پہ اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں۔ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، پارلیمان میں اس جماعت کی اکثریت برقرار رہے گی۔

نیشنل ڈیموکریٹک فورس

یہ جماعت سوچی کی 'نیشنل لیگ' سے علیحدہ ہونے والے رہنمائوں نے قائم کی تھی اور 2010ء کے انتخابات میں کئی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ یکم اپریل کے ضمنی انتخاب میں اس جماعت کے 10 امیدواران حصہ لے رہے ہیں۔

شان نیشنلیٹیز لیگ فار ڈیموکریسی

سنہ 1990 کے عام انتخابات میں یہ دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی لیکن اس نے 2010ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ یہ جماعت ماضی میں کئی بار سوچی کی 'نیشنل لیگ' کی اتحادی رہی ہے۔

شان نیشنلیٹیزڈیموکریٹک پارٹی

یہ جماعت 'وہاِئٹ ٹائیگر پارٹی' کے نام سے معروف ہے اور 2010ء کے عام انتخابات میں اس جماعت کے 57 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔۔ ضمنی انتخابات میں اس نے محض چند نشستوں پر اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں۔

نیشنل یونٹی پارٹی

یہ جماعت برما کی فوجی جنتا اور 'برما سوشلسٹ پروگرام پارٹی' نامی سیاسی جماعت کے سابق رہنمائوں نے قائم کی تھی لیکن 1990ء میں اسے 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' کے ہاتھوں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سنہ 2010 کے عام انتخابات میں اس جماعت نے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ امیدواران کھڑے کیے تھے لیکن ایک بار پھر اسے بدترین شکست ہوئی تھی۔

XS
SM
MD
LG