رسائی کے لنکس

افغانستان سے انخلا کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں: سابق صدر بش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "اس کے نتائج ناقابل یقین حد تک برے ہو سکتے ہیں"۔

انہوں نے یہ بات بین الاقوامی نشریاتی ادارے 'ڈوئچے ویلے' کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔

سابق امریکی صدر نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال سے وہاں خواتین اور لڑکیوں کو 'ناقابلِ بیان نقصان' پہنچ سکتا ہے۔

جارج ڈبلیو بش امریکہ کے وہ صدر ہیں، جن کے دور صدارت میں 20 برس قبل امریکی افواج افغانستان میں طالبان اور ملا عمر کی حکومت کے خلاف کارروائی کے لئے داخل ہوئی تھیں۔

ایک سوال پر کہ آیا فوجی انخلا غلط فیصلہ ہے؟ بش نے کہا کہ ''میں یہی سمجھتا ہوں، چوں کہ میرے خیال میں اس کے انتہائی سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔''

رواں سال کے آغاز پر صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا آغاز کیا تھا جو تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ طالبان جنگجو اس وقت ایک کے بعد دوسرے ضلعے پر قابض ہوتے جا رہے ہیں اور ملک کے ایک بڑے رقبے پر کنٹرول جماچکے ہیں۔

جرمن نشریاتی ادارے کو دیا گیا صدر بش کا یہ انٹرویو ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب جرمن چانسلر انگلا مرکیل اپنے عہدے کی میعاد کے دوران امریکہ کا آخری دورہ کرنے والی ہیں۔ سابق صدر بش نے کہا کہ مرکیل نے افغانستان میں فوج کی تعیناتی کے حمایت کی تھی، چونکہ،بقول ان کے، انھیں بخوبی علم تھا کہ اس کے نتیجے میں افغانستان میں بچیوں اور خواتین کو ترقی کرنے اور بااختیار بننے کا موقع میسر آئے گا۔

بش نے کہا کہ یہ امر ناقابل یقین ہے کہ طالبان کے دور میں معاشرے میں روا رکھے جانے والے مظالم کس طرح ختم ہوئے؛ لیکن انھیں اس بات کا افسوس اور خوف ہے کہ افغان خواتین اور بچیوں پر پھر سے ناقابل بیان مظالم ڈھائے جا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء میں امریکہ کے اندر دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان میں طالبان رہنما ملا عمر کو الٹی میٹم دیا گیا تھا کہ وہ القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کردیں، دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بند کر دیں یا پھر حملے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ملا عمر نے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد اکتوبر میں امریکی زیرِقیادت اتحادی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔جس کے بعد ملا عمر کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ طاقت پکڑنے کی خبروں سے وہ تمام حلقے خدشات کا شکار ہیں، جو طالبان کے دور میں افغان معاشرے کو کئی بنیادی شہری آزادیوں سے محروم ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ ان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے خدشات بھی شامل ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نوے کی دہائی کے اواخر میں طالبان کے دور میں خواتین کو گھروں تک محدود کر دیا گیا تھا جب کہ بچیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ اس معاملے پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے احتجاج کے باوجود طالبان نےشریعہ کی سخت تعزیرات نافذ کر رکھی تھیں۔ تاہم، بچیوں اور خواتین پر سختی برتنے کے خلاف کوئی بھی کھل کر احتجاج نہیں کر سکتا تھا۔

سابق امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے سابق خاتون اول، لارا بش کے ہمراہ افغان خواتین کے بہبود کے لیے کافی وقت صرف کیا، اور یہ کہ، بقول ان کے، اب افغان خواتین اور بچیاں پھر سے خوفزدہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مترجم اور وہ افراد جنھوں نے نہ صرف امریکی بلکہ نیٹو افواج کی مدد کی، انھیں ظالم افراد کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے، جو ان سے بے رحمی کے ساتھ پیش آ سکتے ہیں۔

امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے، رواں ماہ آٹھ جولائی کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے،کہا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن 31 اگست کو ختم ہوجائے گا۔ انھوں نے کہا کہ چار امریکی صدور کے ادوار میں افغانستان میں امریکی افواج تعینات رہی ہیں، اس طویل لڑائی کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔ جو بائیڈن نے کہا کہ اب افغانستان کے رہنماؤں کو اکٹھے ہو کر مستقبل کی جانب بڑھنا ہوگا۔

افغانستان کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ حالیہ دنوں میں متعدد بار یہ کہہ چکی ہے کہ افغان جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ صدر بائیڈن نے واضح کیا تھا کہ انہیں طالبان پر بھروسا نہیں، لیکن انہیں افغانستان کی فوج کی اپنی حکومت کا دفاع کرنے کی صلاحیت پر بھروسا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا مشن اسی وقت مکمل ہو گیا تھا جب ہم نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالا تھا اور دنیا کے اس خطے سے دہشت گردی کا پھیلاؤ بند ہوگیا تھا۔

(اس خبر میں شامل مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG