رسائی کے لنکس

کمبوڈیا: بھگڈر میں ہلاک ہونے والے347 افراد کی یاد میں تقریب


بھگڈر کے بعد پل پر لوگوں کے جوتے بکھرے پڑے ہیں۔ اس حادثے میں347 افراد ہلاک ہوئے
بھگڈر کے بعد پل پر لوگوں کے جوتے بکھرے پڑے ہیں۔ اس حادثے میں347 افراد ہلاک ہوئے

کمبوڈیا میں ہزاروں لوگ ان افراد کی یاد منانے کے لیے اکھٹے ہوئے جو اس ہفتے کے شروع میں ایک جزیرے پر پانی کاسالانہ پرہجوم تہوار ختم ہونے پر ایک پل پر پھنس کر ہلاک ہوگئے تھے۔

کمبوڈیا میں ہزاروں لوگ ان افراد کی یاد منانے کے لیے اکھٹے ہوئے جو اس ہفتے کے شروع میں ایک جزیرے پر پانی کاسالانہ پرہجوم تہوار ختم ہونے پر ایک پل پر پھنس کر ہلاک ہوگئے تھے۔

کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن سین نے جمعرات کی صبح، ہلاک ہونے والوں کی یاد میں فنوم پن کے ڈائمنڈ آئی لینڈ پل پر دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔

درجنوں قانون ساز، سیاست دان اور سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری بھی اس دعائیہ تقریب میں موجود تھے۔

اس موقع پر دارلحکومت میں قومی پرچم سرنگوں رہے اور لوگوں نے ان 347 افراد کی یادگار پر پھول چڑھائے جو پیر کو دیر گئے پل کے حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں 395 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

فنوم پن کے گورنر کیپ چوکٹماکا کہنا ہے کہ تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ پل پر آٹھ ہزار کے لگ بھگ لوگ موجود تھے ، جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔

انہوں نے کہاکعہ آپ کو معلوم ہے کہ پل ہزاروں افراد کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔ اور اسی وجہ سے یہ سانحہ ہوا۔ یہ بہت افسوس ناک ہے اور فنوم پن کے گورنر کی حیثیت سے میں اپنے عوام اور متاثرہ خاندانوں سے اپنے دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔

گورنر کا کہناہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں دم گھٹنے یا افراتفری کے باعث اندورنی طورپر خون بہنے سے ہوئیں۔ تفتیش کاروں کی عبوری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھگڈر کا آغاز اس وقت ہواجب زیادہ بوجھ کے باعث پل جھکناشروع ہوا۔

ایسے میں کہ جب لوگ ہلاک ہونے والوں کی یاد منا رہے تھے ، اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے درجنوں افراد فنوم پن کے ایک اسپتال کے برآمدوں میں چٹائیوں پر لیٹے ہوئے تھے۔

کتھ وی کی عمر 20 سال کے لگ بھگ ہے اور وہ کپڑے بنانے کی ایک فیکٹری میں کرتاہے۔ حادثے کی شام وہ اپنی فیکٹری کی چارساتھیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا ۔ وہ سب جزیرے پر جانے کی کوشش کررہے تھےجو کہ ایک مقبول تفریحی مرکز ہے۔

لیکن جب وہ 100 میٹر لمبے پل کے وسط میں پہنچے ، تو دوسری جانب سے آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے باعث وہاں پھنس کررہ گئے۔

ان کا کہناہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کی ساتھیوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ان پانچوں نے اپنے ہاتھ پکڑلیے اور انہوں نے ایک ساتھ پل عبور کرنے کی کوشش کی۔ مگر ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔

کتھ وی بے ہوش ہوگیا اور جب اسے ہوش آیا تو وہ اسپتال میں تھا۔

ایسی ہی کہانی ایک اور گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والے 17 سالہ ہے سوفن کی ہے۔ وہ پہلی بار پانی کے تہوار میں شرکت کے لیے گئی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ جزیرے سے نکلنے کی کوشش کررہی تھیں کہ پل پر پھنس گئیں۔ وہ بے ہوش ہونے ہی والی تھیں کہ لوگوں کی مدد سے وہ اپنے حواس بحال رکھنے میں کامیاب ہوگئیں۔

سوفن اتنی پریشان ہوئیں کہ تیرنا نہ جاننے کے باوجود انہوں نے پل پر سے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ دریاد میں گودنے والے بہت سے لوگ ڈوب گئے ۔ لیکن وہ خوش قسمت نکلیں ۔ دوسرے لوگوں نے ان کی جان بچائی۔

کچھ لوگوں نے پل منہدم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اورکئی دوسرے افراد نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ کبھی ڈائمنڈ جزیرے پر نہیں جائیں گے، کیونکہ اب وہاں ہلاک ہونے والوں کی روحیں بھٹک رہی ہیں۔

جب کہ حکومت کا کہناہے کہ وہ اس مقام پر ایک یادگار تعمیر کرے گی۔

گورنر کیپ چکٹما کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ شہر کے لیے ایک تکلیف دہ سبق ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ اگلے سال حکام انتظامات کے لیے زیادہ بہتر طورپر تیار ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG