رسائی کے لنکس

اعتماد کی بحالی اور تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کروں گا: ایمبسیڈر کیمرون منٹر


اعتماد کی بحالی اور تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کروں گا: ایمبسیڈر کیمرون منٹر
اعتماد کی بحالی اور تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کروں گا: ایمبسیڈر کیمرون منٹر

پاکستان کے لیے امریکہ کے نئے سفیر کیمرون منٹر نے کہا ہے کہ پاکستان میں ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج پاکستان کے عوام میں امریکہ کے لیے اعتماد کی بحالی ہے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے لیے پاکستان روانگی سے قبل واشنگٹن میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتےہوئے ایمبیسڈر منٹر نےکہا کہ وہ اپنی تقرری کو پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنانے کا موقع سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک بہت متحرک دور ہے۔ اور یہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے لیے ایک اہم وقت ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دونوں ملک اپنے باہمی تعلقات کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ اس میں کچھ مثبت سوچ کے علاوہ حقیقت پسندی بھی شامل ہو گی، کچھ موجودہ مسائل کے حوالے سے۔ مثال کے طور پر سیلاب، معیشت اور سیاسی صورت حال۔ ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ مجھے پاکستان کے لوگوں سے تعلقات قائم کرنے اور سابق امریکی سفیروں کی کوششوں کو آگے بڑھانے کا موقع ملا ہے، اور مجھے امید ہے کہ ہم صورت حال میں بہتری لا سکیں گے۔

ڈاکٹر کیمرون منٹر اپنے کریئر کے دوران کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج کیا ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سب سے بڑا چیلنج اعتما قائم کرنے کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کے دلوں میں امریکہ کی طرف سے بہت سے خدشات ہیں کہ امریکیوں کے مقاصد کیا ہیں۔ ہم اس علاقے میں کیوں گئے ہیں اور انہیں اتنی تعداد میں رقوم کیوں دے رہے ہیں۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستان کو بہت مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہمیں امریکیوں کے خدشات کو بھی ختم کرنا ہو گا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے باہمی تعلقات کا مستقبل کیا ہو گا؟ ہم اعتماد کی فضا پید ا کرنے کے لیے مل کرکام کریں گے۔ تاکہ ہم کھل کر آپس میں بات کر سکیں جیسا کہ صدر اوباما نے حالیہ سٹرٹیجک کے دوران پاکستانی راہنماؤں کے ساتھ کھل کر با ت کی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں کافی پیش رفت ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں لوگوں کے تاثرات کے بار ے میں ایمسیڈر منٹر سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ امداد فراہم تو کرتا ہے لیکن ساتھ ہی مطالبوں کی فہرست بھی پیش کرتا ہے۔ جبکہ چین پاکستان سے مطالبے کرتا ہے اور نہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل دیتا ہے۔ پاک امریکی تعلقات کا یہی تاثر پاکستانی میڈیا میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میڈیابہت آزاد ہے۔ بلکہ شاید دنیا کا آزاد ترین میڈیا ہے۔ آپ کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔ مجھے امید ہے میری ملاقات میڈیا کے بہت سے نمائندوں سے ہو گی۔ جو میں سمجھتا ہوں مجھے بہت توجہ دیں گے اور شاید کچھ مشکل سوال بھی پوچھیں۔ اس قسم کے تعلقات کا مقصد اور آپ نے چین کا حوالہ دیا، وہ یہ ہے کہ امریکی امریکیوں کی طرح ہی پیش آئیں گے۔ ہم روشن خیال ہیں اور ہمارا رویہ دوستانہ ہے۔ ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے ۔ ہم بہت متوع ہیں۔ میں پاکستانیوں کے بارے میں بھی یہی تاثر قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستانی بھی روشن خیال اور دوستانہ رویہ رکھتے ہیں۔ وہ لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنی بات کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ امریکہ اس لحاظ سے شاید دوسرے ملکوں سے کچھ مختلف ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر بات کریں گے، بالکل رشتہ دارون کی طرح۔ شاید ہمارے درمیان کچھ اختلافات ہوں۔ لیکن مجھے امید ہے ہم ان میں کمی لاسکیں گےاور ایک ایسا اعتماد قائم کر سکیں گے جو ایک بہتر مستقبل کی بنیاد ڈال سکے۔

XS
SM
MD
LG