عسکریت پسندوں کے ہاتھوں افغانستان سے اغوا کے پانچ سال بعد بازیاب ہونے والے کینیڈین شہری کو اوٹاوا میں پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر تشدد اور حبسِ بے جا میں رکھنے سمیت متعدد الزامات ہیں۔
جوشوا بوئیل کو ان کی اہلیہ کیٹلن کولمین اور ان کے تین بچوں سمیت گزشتہ اکتوبر میں پاکستانی فورسز نے پاک افغان سرحد کے قریب ایک کارروائی کے دوران بازیاب کرایا تھا۔
کینیڈین پولیس کے مطابق انھوں نے 34 سالہ بوئیل کو تشدد کے آٹھ، جنسی تشدد کے دو، حبسِ بے جا میں رکھنے کے دو اور قتل کی دھمکیاں دینے کے ایک الزام کے تحت حراست میں لیا۔
تاہم حکام نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ بوئیل نے مبینہ طور پر کن افراد کے خلاف یہ جرم کیا۔
بوئیل کے وکیل ایرک گرینجر نے کہا ہے کہ ان کے مؤکل بے قصور ہیں اور وہ کبھی بھی ایسی کسی جرم میں ملوث نہیں رہے۔
وکیل کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات کے شواہد کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ جوشوا بوئیل کا دفاع کیا جا سکے۔
اوٹاوا پولیس نے 30 دسمبر کو ان الزامات کے تحت بوئیل کو حراست میں لیا تھا اور وہ اب تک پولیس کی تحویل میں ہیں۔ انھیں بدھ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
اغوا کاروں سے بازیابی کے بعد بوئیل اور ان کی امریکی نژاد اہلیہ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے شدت پسندوں نے دورانِ تحویل ان کے ایک بچے کو ہلاک کیا جب کہ کولمین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔
افغان طالبان ان دعوؤں کو مسترد کر چکے ہیں۔
کینیڈا کے ایک مقامی اخبار میں کیٹلین کولمین کی طرف سے شائع ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ان الزامات پر کوئی بات نہیں کریں گی لیکن ان کے بقول بوئیل نے جو بدترین پانچ سال گزارے ان کا اثر ان کے دماغ پر ہوا ہے اور وہ نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہیں۔