رسائی کے لنکس

پنجاب میں کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی بند


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبۂ پنجاب میں سرطان کے مرض میں مبتلا مریضوں کو حکومت کی جانب سے مفت ادویات کی فراہمی بند کر دی گئی ہے جس کے باعث مریض سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ دوائی بنانے والی کمپنی کا آڈٹ کیا جا رہا ہے۔

صوبۂ پنجاب میں کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی بندش کا معاملہ اُس وقت سامنے آیا تھا جب گزشتہ ماہ کینسر کے مریضوں نے لاہور کی شاہراہ قائدِ اعظم (مال روڈ) پر پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا۔

احتجاج میں شریک مریضوں کا کہنا تھا کہ وہ کینسر سے مرنا نہیں چاہتے بلکہ جینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ادویات کی فراہمی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔

اسی احتجاج میں شامل لاہور کے رہائشی 48 سالہ شاہد سلطان بھی تھے جو خون کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ شاہد سلطان کے مطابق رواں سال اپریل کے مہینے سے مفت ادویات کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شاہد سلطان نے بتایا کہ وہ حسب معمول اپنے طبّی معائنے اور دوائی لینے جناح اسپتال گئے تھے۔ جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ حکومت نے کینسر کے مرض میں مبتلا مریضوں کو مفت ادویات کی سہولت بند کر دی ہے۔

شاہد سلطان کہتے ہیں کہ ادویات کی بندش کے باعث انہیں اور دیگر مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے بقول وہ اپریل سے ستمبر تک 80 ہزار روپے کی دوائیں بازار سے خرید چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’دن میں چار مرتبہ لی جانے والی دوائی دو مرتبہ لینا شروع کر دی ہے۔ کئی دن دوائیں کھائے بغیر بھی گزارا کرنا پڑا جس کے باعث جسم میں کمزوری بڑھتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگر دوائی نہیں لیں گے تو طبیعت مزید خراب ہوتی چلی جائے گی۔‘

اسپتالوں کی صورتِ حال

جناح اسپتال لاہور کے ایک سینئر ڈاکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کم و بیش چھ ماہ سے اسپتال میں کینسر کے مریضوں کی ایک خاص دوائی بند ہے جو سی ایم ایل کے مریضوں کو دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر کے مطابق بند ہونے والی دوائی کی قیمت تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار روپے سے لے کر دو لاکھ روپے تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کے احتجاج کے بعد اُمید ہے کہ اس دوائی کی فراہمی جلد دوبارہ شروع ہو جائے گی۔

محکمہ صحت پنجاب کا مؤقف

محکمۂ صحت پنجاب کے ایک سینئر عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات دینے کے لیے نوارٹس فارما سے ایک معاہدہ کیا تھا۔

ان کے بقول اس معاہدے کے تحت دوائی کی کل قیمت کا 90 فی صد دوائی بنانے والی کمپنی جب کہ 10 فی صد پنجاب حکومت برداشت کرتی تھی۔ سینئر عہدے دار کے مطابق موجودہ حکومت کو اس معاہدے میں کوئی کھوٹ نظر آئی اور انہوں نے نوارٹس فارما کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تجدید تک سابقہ معاہدے کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ جس کے باعث مذکورہ کمپنی نے دوائی بنانا بند کر دی۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کہتی ہیں کہ کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی سے متعلق معاملہ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں اُٹھایا گیا تھا اور اس کا جواب بھی وہیں دے دیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ مذکورہ دوائی بنانے والی کمپنی نوارٹس نے حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا کہ وہ یہ دوائی رعایتی نرخوں پر کینسر کے مرض میں مبتلا مریضوں کو فراہم کرے گی۔

صوبائی وزیرِ صحت کے بقول یہ معاہدہ گزشتہ پانچ برسوں سے جاری تھا جس کے تحت سوا ارب روپے کی دوائیاں ہر سال خریدی جاتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب معاہدہ مکمل ہوا ہے تو اس کا آڈٹ تو ہونا چاہیے۔ ان کے بقول سوا ارب روپے کی دوائی 3700 لوگوں کو دی جا رہی تھی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ دوائی بنانے والی کمپنی کو لگا کہ شاید موجودہ حکومت ان کے ساتھ نیا معاہدہ نہیں کرے گی تو اس لیے کمپنی نے دوا بنانا بند کردی۔

محکمۂ صحت پنجاب کے پاس صوبہ بھر میں کینسر کے مریضوں کی درست تعداد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ البتہ محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 30 سے 70 سال کی عمر کی آبادی کا پانچواں حصہ کینسر کی مختلف بیماریوں، ذیابیطس، چھاتی کے سرطان، دمہ اور امراض قلب میں مبتلا ہے۔ جس کے باعث اُن کی موت بھی واقع ہو جاتی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف

پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضٰی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت اپنی معاشی پالیسیوں میں ناکام ہو چکی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سید حسن مرتضٰی نے کہا کہ کینسر کے مریضوں کو دی جانے والی ادویات بنانے والی کمپنی کا آڈٹ کرانے کے لیے حکومت نے دوائیں روک دیں۔

ان کے بقول ’جب بھی کمپنیوں کے آڈٹ ہوتے ہیں تو وہ اپنے کاروبار بند کرتی ہیں نہ ہی کاروبار روکتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے وہ کمپنی حکومت کو کہہ رہی تھی کہ معاہدہ ختم ہونے والا ہے لہٰذا اس کی تجدید کر دی جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے معاہدے کی تجدید نہ ہونے کے باوجود کمپنی مریضوں کو ادویات فراہم کرتی رہی۔

سید حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ مریضوں کی رجسٹریشن اور دواؤں کی تقسیم کمپنی خود کرتی ہے۔ حکومت اُس میں اپنا کچھ حصہ ڈالتی ہے جب کہ اس دفعہ حکومت نے اپنا حصہ نہیں ڈالا۔

’معاہدہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے‘

وائس آف امریکہ کی جانب سے نوارٹس فارما پاکستان کے کراچی میں قائم مرکزی دفتر سے رابطہ کرنے پر بینا نامی خاتون نے بتایا کہ معاہدہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ اس سے زیادہ تفصیلات وہ نہیں بتا سکتیں۔

واضح رہے کہ کینسر کے مریضوں کو ادویات کی مفت فراہمی کی بندش کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ بھی زیرِ سماعت ہے جس پر عدالت نے پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG