رسائی کے لنکس

کرونا پھیلانے کا الزام: بھارت میں 376 تبلیغی اراکین پر فرد جرم عائد


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

بھارت میں کرونا وائرس پھیلانے کے الزام میں تبلیغی جماعت کے 376 غیر ملکی اراکین کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔

نئی دہلی پولیس نے جمعرات کو 34 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 376 غیر ملکی اراکین پر فرد جرم عائد کی ہے۔ تبلیغی جماعت نے مارچ میں نظام الدین مرکز میں تبلیغی اجتماع منعقد کیا تھا۔

بھارتی حکام نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس اجتماع کے باعث ملک میں کرونا وائرس تیزی سے پھیلا۔

پولیس نے بھارت میں تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا محمد سعد کاندھلوی کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔ البتہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تھی۔

پولیس نے تبلیغی جماعت سے وابستہ 376 غیر ملکی اراکین کے خلاف جو کہ 34 ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں، 35 فرد جرم داخل کی ہیں۔

بیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے 82 افراد کے خلاف پہلی بار اور 14 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 294 افراد کے خلاف دوسری بار فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

تبلیغی جماعت کے ان اراکین پر الزام ہے کہ انہوں نے ویزا قوانین، کرونا وائرس کے پیش نظر جاری کی گئی رہنما ہدایات، ایپیڈمک ڈزیز ایکٹ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور حکم امتناع کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان پر دیگر دفعات کے تحت بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

حکومت نے ان اراکین کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور انہیں بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

جن کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ان میں سے 294 غیر ملکیوں کا تعلق ملائیشیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور دیگر متعدد افریقی ملکوں سے ہے۔

82 افراد میں سے چار کا تعلق افغانستان، سات کا برازیل اور چین جب کہ پانچ کا تعلق امریکہ سے ہے۔

آسٹریلیا، قازقستان، مراکش اور برطانیہ کے دو دو جب کہ یوکرین، مصر، روس، اُردن، فرانس، تیونس اور بیلجیم سے ایک ایک اور آٹھ کا تعلق الجیریا سے ہے۔

سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے 10 افراد ہیں جب کہ 14 افراد کا تعلق فجی اور چھ کا سوڈان اور فلپائن سے ہے۔

اس معاملے پر 12 جون کو سماعت ہوگی۔

فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ سیاحتی ویزے پر آئے تھے مگر انہوں نے مذہبی تقریبات میں شرکت کی۔ جن الزامات کے تحت فرد جرم داخل کی گئی ہے ان میں چھ ماہ سے لے کر آٹھ سال تک کی جیل ہو سکتی ہے۔

تبلیغی جماعت کے مذکورہ اراکین نے مارچ میں نئی دہلی کے نظام الدین علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں منعقد ہونے والے ایک اجتماع میں شرکت کی تھی جن میں سے کئی افراد کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے تھے۔

تبلیغی جماعت کے وکیل فضل ایوبی ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسی قسم کے ایک معاملے میں ہریانہ میں فریدآباد اور میوات کی عدالتوں نے ویزا قوانین کی خلاف ورزی کی دفعات کو تسلیم نہیں کیا۔

لہذٰا امید ہے کہ عدالت ان اراکین کو ریلیف دے کر اُن کو اپنے ملک جانے کی اجازت دے گی۔

فضل ایوبی نے کہا کہ جو لوگ تبلیغ میں آتے ہیں اسی طرح آتے ہیں، وہ سیاحتی ویزے پر ہی آتے ہیں اور امیگریشن کاؤنٹر پر بتاتے ہیں کہ وہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جائیں گے۔

فضل ایوبی نے مزید کہا کہ ویزا قوانین کے مطابق جو لوگ باہر سے آتے ہیں وہ تبلیغ تو نہیں کر سکتے البتہ تبلیغ کے پروگراموں میں شرکت کر سکتے ہیں اور وہ دوسری جگہوں پر بھی جا سکتے ہیں۔

اس لیے یہ کہنا کہ انہوں نے تبلیغ کی یہ الزام غلط ہے۔ البتہ اُنہوں نے تبلیغ کے پروگراموں میں شرکت کی جس کی اجازت ہے۔ کیوں کہ وہ سیکھنے کے لیے آتے ہیں سکھانے کے لیے نہیں۔

ادھر پولیس کا الزام ہے کہ جن ملکی و غیر ملکی افراد نے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے ملک میں کرونا پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کے نفاذ کی بھی خلاف ورزی کی اور لاک ڈاؤن کے اعلان کے باوجود وہ مرکز میں موجود رہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تین مارچ کو شروع ہونے والے تبلیغی اجتماع کو اس وقت بھی ختم نہیں کیا گیا جب 24 مارچ کو حکومت نے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس تبلیغی اجتماع کو ملک کی 17 ریاستوں میں ایک ہزار سے زائد افراد میں کرونا پھیلانے کا ذمہ دار کہا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس اجتماع میں باہر کے ممالک سے آئے شرکا کے ذریعے پھیلا۔

دوسری جانب تبلیغی جماعت نے پولیس کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے 22 مارچ کو ملک گیر ایک روزہ کرفیو کے اعلان کے فوراً بعد انہوں نے یہ اجتماع ختم کرتے ہوئے وہاں موجود تمام شرکا کو اپنے اپنے گھروں میں واپس جانے کا کہا تھا۔

اجتماع کے منتظمین کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ واپس چلے گئے تھے لیکن بہت سے لوگ وہاں پھنس گئے تھے کیوں کہ اگلے ہی دن مختلف ریاستوں نے اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کر دی تھیں۔ دو دن بعد پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہو گیا تھا اور بسیں اور ٹرینیں بند ہو گئی تھیں۔

منتظمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اس صورتِ حال سے پولیس کو آگاہ کر دیا تھا اور طبی عملے سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے انہیں مسجد میں آ کر اس جگہ کا معائنہ کرنے میں بھی مدد دی تھی۔

تبلیغی جماعت کی جانب سے اجتماع میں شرکت کرنے والے ہزاروں اراکین میں سے بہت سے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور جو رہ گئے تھے ان کو بھیجنے کے لیے گاڑیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔

اس کے بعد پولیس نے سیکڑوں اراکین کو مرکز سے نکالا تھا اور ان کو الگ الگ قرنطینہ مراکز میں بھیج دیا گیا تھا۔

بھارت میں تبلیغی جماعت کے اراکین پر لگنے والے الزامات کے بعد صورتِ حال کشیدہ ہو گئی تھی۔ بعض علاقوں میں ہندو مسلم فسادات کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔

تبلیغی جماعت کے جن لوگوں کو قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا تھا ان میں بہت سے مقامی شہریوں کو کو 14 روز کے بجائے ایک ماہ بعد گھر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG