رسائی کے لنکس

چلاس: مسافر بس پر فائرنگ سےہلاکتیں؛ 'اب دن میں قافلوں کی صورت میں ہی سفر ہو گا'


 ماضی میں اس علاقے میں ایسے واقعات رُونما ہوتے رہے ہیں جس میں مسافروں کی شناخت کے بعد اُنہیں قتل کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن حکام کے مطابق اس واقعے میں بلاامتیاز مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔
ماضی میں اس علاقے میں ایسے واقعات رُونما ہوتے رہے ہیں جس میں مسافروں کی شناخت کے بعد اُنہیں قتل کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن حکام کے مطابق اس واقعے میں بلاامتیاز مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے ہفتے کو چلاس میں بس پر فائرنگ سے نو ہلاکتوں کے بعد سیکیورٹی مزید سخت کر دی ہے۔ حکام نے دیامیر کے علاقے میں گاڑیوں کو دن کے اوقات میں قافلوں کی صورت میں گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

گلگت بلتستان کے وزیر اعلی گلبر خان نے اتوار کی شام چلاس میں علمائے کرام، سول اور سیکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان اقدامات کا اعلان کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ گلگت اور اسکردو سے راولپنڈی کے لیے مسافر گاڑیاں فجر کے بعد نکلیں گی اور یقینی بنایا جائے گا کہ گاڑیاں دن کے اوقات میں گزریں۔

سیاسی تجزیہ کار اور سابق وزیرِ اعلٰی گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق کہتے ہیں کہ دن کے اوقات میں گاڑیاں گزارنے کا فیصلہ خوش آئند ہے، لیکن حکومت کو اس علاقے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نئی حکمتِ عملی ترتیب دینا ہو گی۔

ہفتے کی شب غذر سے راولپنڈی جانے والی ’کے ٹو ٹریولز‘ کی مسافر بس پر جنوبی پہاڑی سے نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں تین مسافر اسی وقت ہلاک ہو گئے تھے جب کہ 15 سے زائد زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا تھا، بعدازاں حکام نے واقعے میں نو ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔

فائرنگ سے بس بے قابو ہو کر سامنے سے آنے والے مال بردار ٹرک سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ٹرک کا اگلا حصہ مکمل طور پر جل گیا تھا جب کہ ٹرک کا ڈرائیور جھلس کر ہلاک ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں دو سیکیورٹی اہل کاروں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

لشکرِ جھنگوی چترال ونگ کا ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ

لشکرِ جھنگوی چترال ونگ نامی ایک غیر معروف تنظیم نے پیر کی شام اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

تنظیم کے بیان میں کہا گیا تھا کہ فائرنگ کا ہدف شیعہ کمیونٹی کے افراد اور سیکیورٹی اہلکار تھے۔

منگل کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے وقت صوبائی وزیرِ داخلہ شمس الحق لون نے کہا کہ فائرنگ کے شبہے میں 17 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے پانچ کو رہا کر دیا گیا ہے۔

وزیرِ داخلہ نے لشکرِ جھنگوی چترال ونگ کو غیر معروف تنظیم قرار دیتے ہوئے اس واقعے کی ذمے داری قبول کرنے کے دعوے کو جھوٹا قرار دے دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس واقعے کو جان بوجھ کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

'شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنانا ہو گا'

اسکردو سے تعلق رکھنے والے صحافی رجب قمر کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنانا ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بہت سے واقعات میں نہ تو کسی قسم کی گرفتاری ہوئی ہے اور نہ ہی تحقیقات ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس بھی پھیل رہا ہے۔

گلگت سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مقامی اخبار کے ایڈیٹر فہیم اختر کہتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی ہڑتال کے باعث شاہراہ قراقرم کے راستے دو طرفہ آمدورفت کا سلسلہ ابھی تک معطل ہے، تاہم داسو، شانگلہ اور بشام میں پھنسے کچھ مسافروں کو سخت سیکیورٹی میں گلگت پہنچا دیا گیا ہے۔

ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی مگر وزیرِ داخلہ شمس لون نے واقعے میں بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' پر الزام لگایا ہے۔ بھارتی حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

فہیم اختر کے مطابق سیکیورٹی حکام نے چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔

اُن کے بقول ٹرانسپورٹ کمپنیوں کا احتجاج اور ہڑتال جاری ہے مگر تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں۔ مختلف مذہبی، سیاسی اور دیگر تنظیموں نے گلگت بلتستان میں مظاہر وں اور احتجاجی ریلیوں کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔

گلگت بلتستان کے اہلِ سنت اور اہلِ تشیع رہنماؤں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

فیض اللہ فراق کہتے ہیں کہ ماضی میں دہشت گردی، تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں، مگر اس واقعے کی بنیاد فرقہ واریت نہیں ہے۔

اُن کے بقول بس پر اندھا دُھند فائرنگ کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی خاص مسلک یا کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

واضح رہے کہ ماضی میں اس علاقے میں ایسے واقعات رُونما ہوتے رہے ہیں جس میں مسافروں کی شناخت کے بعد اُنہیں قتل کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن حکام کے مطابق اس واقعے میں بلاامتیاز مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔

فیض اللہ فراق کے بقول یہ علاقہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہاں دیامیر بھاشا ڈیم مکمل ہونے کے قریب ہے۔ داسو ڈیم، کوہستان ڈیم کی تعمیر بھی آخری مرحلے میں ہے۔ دوسری جانب پاکستان، چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کوریڈور بھی ای علاقے میں ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG