رسائی کے لنکس

چائلڈ لیبر ڈے: دنیا میں 16 کروڑ بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں


ایک افغان بچی سر پر سامان لاد کر پہنچا رہی ہے۔ فائل فوٹو
ایک افغان بچی سر پر سامان لاد کر پہنچا رہی ہے۔ فائل فوٹو

12 جون کو دنیا بھر میں بچوں سے مشقت اور محنت مزووری کرانے کےخلاف شعور بیدار کرنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے 2002 میں ہر سال یہ دن منانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ بچوں سے ان کا بچپن نہ چھینا جائے اور انہیں تعلیم دلوائی جائے تاکہ وہ بڑے ہوکر مفید شہری بن سکیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن نمبر 182 کے مطابق معمول کےاور پر خطر کام کے لیے کم از کم عمر 18 سال ہونا ضروری ہے جب کہ ترقی پذیرملکوں میں ہلکی نوعیت کے کام کے لیے 14 سال جب کہ ترقی یافتہ ملکوں میں 15 برس کے بچوں کو ملازم رکھا جا سکتا ہے۔

اس سال چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن پر اقوام متحدہ کی توجہ سماجی انصاف پر مرکوز ہے اور عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبراور سماجی انصاف کے درمیان ربط کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کو یکساں انصاف مل سکے۔

میانمار میں بچوں کی ایک بڑی تعداد محنت مزوری کرتی ہے۔
میانمار میں بچوں کی ایک بڑی تعداد محنت مزوری کرتی ہے۔

لیکن اس کنونشن پر عمل درآمد کی راہ میں غربت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں والدین اپنے بچوں کو کم عمری میں محنت مشقت اور نوکری پر لگا دیتے ہیں تاکہ گھر کا چولہا جلتا رہے۔

عالمی ادارہ سمجھتا ہے کہ بچوں سے محنت مزوری کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ان وجوہات کو ختم کیا جائے جو بچوں سے مشقت کرانے کا سبب بنتی ہیں، جن میں سرفہرست غربت، وسائل کی کمی اور کسی خاندان میں رونما ہونے والے وہ اسباب ہیں جو بچوں کو چائلڈ لیبر کی جانب دھکیل دیتے ہیں تاکہ وہ خاندان کا پیٹ پالنے میں اپنا حصہ ڈال سکے۔

پاکستان میں ایک بچہ گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کر رہا ہے۔
پاکستان میں ایک بچہ گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ سن 2000 کے عشرے سے دنیا چائلد لیبر کے خاتمے کی جانب پیش رفت کرر ہی ہے لیکن گزشتہ کچھ برسوں کے دوران جنم لینے والے بحرانوں، تنازعات اور عالمی وبا کے پھیلاؤ نے مزید خاندانوں کو غربت میں دھکیل دیا ہے۔جس کی وجہ سے آج دنیا بھر میں تقریباً 16 کروڑ بچے چائلد لیبر کرنے پر مجبور ہیں ۔گویا دنیا بھر میں تقریباً دس میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر کا حصہ ہے۔دوسرے لفظوں میں ہر دس میں سے ایک بچہ محنت مزوری کر کے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روٹی کما رہا ہے۔

اگر کرہ ارض پر نظر ڈالی جائے تو بچوں سے مشقت کرانے میں براعظم افریقہ سب سے آگے ہے، جہاں ہر پانچواں بچہ چائلڈ لیبر سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی تعداد سات کروڑ 20 لاکھ ہے۔ جب کہ اس کے بعد ایشیا، اور بحرالکاہل کے علاقے کے ملکوں کا نمبر آتا ہے جہاں محنت مزوری کرنے والے بچوں کی تعداد چھ کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

پاکستان میں ایک بچی انیٹوں کے بھٹے پر کام کر رہی ہے۔
پاکستان میں ایک بچی انیٹوں کے بھٹے پر کام کر رہی ہے۔

افریقہ، ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقوں میں 13 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ گویا چائلڈ لیبر سے منسلک ہر دس میں سے نو بچوں کا تعلق افریقہ اور ایشیا کے براعظموں اور بحرالکاہل کے علاقوں سے ہے۔

امریکہ کے شمالی اور جنوبی براعظموں کے ملکوں میں ایک کروڑ 10 لاکھ بچے چائلد لیبر میں شامل ہیں ۔ اسی طرح یورپ، وسطی ایشیائی ملکوں اور عرب ریاستوں میں بھی تقریباً70 لاکھ بچے محنت مزوری کرتے ہیں۔

کینیا میں ایک بچی پتھر توڑنے کا کام کر رہی ہے۔
کینیا میں ایک بچی پتھر توڑنے کا کام کر رہی ہے۔

اگر ہم اپنے خطے پر نظر ڈالیں تو پاکستان کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق 9 اعشاریہ 8 فی صد بچے چائلڈ لیبر میں تھے جن کی عمریں 10 اور 14 سال کے درمیان تھیں۔ یہ بچے اینٹوں کے بھٹوں، کاشت کاری، گھریلو ملازموں کے طور پر ، ورکشاپوں اور فیکٹریوں میں کام کر رہے تھے۔

پڑوسی ملک بھارت کے بارے میں گلوبل فنڈ فار چلڈرن کی 2020 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں وہاں تقریباً ایک کروڑ بچے محنت مزوری کر رہے تھے جن میں سے 35 ہزار سے زیادہ بچے ریاست مہاراشٹر کے صرف ایک علاقے کولہاپور میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کر رہے تھے جنہیں روزانہ تقریباً 40 امریکی سینٹ کے مساوی مزوری ملتی تھی۔

ایک افغان بچہ غبارے بیچ رہا ہے۔
ایک افغان بچہ غبارے بیچ رہا ہے۔

افغانستان میں کام کرنے والی امدادی تنظمیوں کے تحت کرائے گئے ایک سروے میں جس میں دس ہزار خاندانوں کے سربراہوں کے انٹرویوز کیے گئے تھے، معلوم ہوا کہ ہر خاندان میں کم ازکم ایک بچہ محنت مزوری کر رہا تھاجس سے چائلڈ لیبر میں بچوں کی تعداد جو 2021 میں 13 فی صد تھی 2022 میں بڑھ کر 29 فی صد ہو گئی ۔ ان میں سے زیادہ تر بچے کوئلے کی کانوں میں کام کر رہے تھے۔

بچوں کو جبری مشقت سے نکالنے کے لیے شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے وسائل مہیا کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ غربت کا خاتمہ ہو سکے اور والدین اپنے بچوں کو مزوری پر لگانے کی بجائے انہیں اسکول بھیجنے کا سوچنے لگیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG