رسائی کے لنکس

دنیا میں ڈھائی لاکھ "کم سن فوجی" موجود ہیں، اقوامِ متحدہ کا دعویٰ


بچہ فوجی
بچہ فوجی

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بھجوائی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ کم سِن فوجی موجود ہیں جبکہ مسلح تصادموں اور جنگوں میں متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف حصوں میں مسلح تصادموں کے باعث اپنے ہی ملکوں میں بے دخلی کا سامنا کرنے والے بچے علاقائی گروپوں کی جانب سے فوجی بھرتیوں جیسے خطرات کا شکار ہیں۔

تاہم اس مایوس کن صورتحال کے باوجود یو ۔این۔ سیکریٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی برائے چلڈرن اینڈ آرمڈ کانفلکٹ ردھیکا کمارسوامی کی جانب سے مرتب کردہ اس رپورٹ میں سالِ گزشتہ میں ہونے والی کچھ مثبت پیش رفت کا بھی تذکرہ گیا ہے جس میں سرِ فہرست نیپال، سوڈان اور برونڈی میں سرگرمِ عمل متحرک مسلح گروپوں اور اقوامِ متحدہ کے مابین "بچہ فوجیوں" کی ان گروپوں کے قبضے سے رہائی پہ اتفاقِ رائے ہونا ہے۔

تاہم ردھیکا اس تاثر سے متفق ہیں کہ یہ پیش رفت دنیا بھر کے بچوں کو درپیش چیلنجز کے مقابلے میں رائی کے برابر ہے۔

ایسے ہی ایک چیلنج کے بارے میں ان کا کہنا ہے، "ڈیمو کریٹک ریپبلک آف کانگو میں حال ہی میں پیش آنے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات دل دہلا دینے والے ہیں۔ اب تک سامنے آنے والے اعدادو شمار کے مطابق کم از کم 500 کے لگ بھگ خواتین اور بچوں کا جنسی استحصال کیا گیا ، جن میں سے ایک بچے کی عمر صرف سات برس تھی"۔

اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ اہلکار نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بچوں کے خلاف بیشتر جرائم ترقی پذیر ممالک میں پیش آتے ہیں۔

اپنی رپورٹ میں رادھیکا نے امریکہ کو عمر خضر نامی ایک کم سن مبینہ دہشت گرد پرگوانتانامو بے میں ملٹری کمیشن کے روبرو کیس چلانے پہ بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

امریکی فوجیوں نے عمرخضر کو 2002 میں 15 سال کی عمر میں افغانستان سے گرفتار کیا تھا۔ اس پہ الزام تھا کہ اس نے گرینیڈ سے حملہ کرکے ایک امریکی فوجی کو ہلاک کردیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کی اہلکار کے مطابق خضر وہ پہلا شخص تھا جس پہ فوجی کمیشن کے روبرو جنگی جرائم کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ "دنیا بھر میں کم سن فوجیوں پہ جنگی جرائم کے تحت مقدمات نہ چلانے پہ اتفاق پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں استغاثہ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنگی جرائم کے مرتکب کم سِن فوجیوں کو سزا دلانے کے بجائے ان کی بحالی اور پرامن زندگی کی طرف واپسی میں مدد دینے جیسے اقدامات یقینی بناتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت یہ بچے اس لڑائی کے مقاصد سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں جنہیں ان کے بڑے اس میں جھونک دیتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے امریکہ کا خضر جیسے کم سن فوجی پہ جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانے کا عمل کہیں دیگر ممالک کیلیے مثال نہ بن جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے دنیا بھر میں "بچہ فوجیوں" کو حاصل تحفظ خطرے میں پڑ جائے گا"۔

اپنی اس رپورٹ میں مسلح جنگوں کے بچوں پہ پڑنے والے اثرات کی ماہرردھیکاکمار سوامی نے دنیا کے مختلف ممالک میں بے گھر ہونے والے بچوں کی صورتحال اور انہیں درپیش خطرات پہ بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے:

"دنیا میں آج سب سے زیادہ وہ بچے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں جو مسلح تصادم اور جنگوں کے باعث اپنا گھر باراور آبادیاں چھوڑنے پہ مجبور ہوئے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق اندرونِ ملک بے دخلی کا شکار ہوکر مختلف کیمپوں میں بے گھری کی زندگی گزارنے والے ان بچوں کو ہی مسلح گروپوں کی جانب سے سب سے زیادہ بھرتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ نیز اپنے گھروں سے بے دخلی کے بعد ان بچوں کے مختلف افراد اور گروپوں کے ہاتھوں استحصال کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے"۔

اپنی رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ اہلکار نے دنیا بھر کے ممالک پہ "آپشنل پروٹوکول آن چلڈرین ان آرمڈ کانفلکٹ" نامی عالمی معاہدے پہ دستخط کرنے پہ زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق بچوں کی مسلح جنگوں اور تصادم میں بطورِ فوجی شرکت کے عمل پر عالمی پابندی کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

XS
SM
MD
LG