رسائی کے لنکس

بھارت چین سرحدی تنازع: کیا بھارتی فوجیوں کو یہ سردیاں بھی سرحد پر گزارنا ہوں گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ماہرین بھارت اور چین کے درمیان مذاکرات میں آنے والے حالیہ تعطل کا جائزہ لے رہے ہیں، جس کا مطلب ممکنہ طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ ہزاروں بھارتی فوجی ہمالیہ کے یخ بستہ خطے میں مسلسل دوسری سردیوں میں بھی تعینات رہیں گے۔

بھارتی فوج کو چین اور پاکستان کے ساتھ اپنی دو متنازعہ سرحدوں کی نگرانی کا چیلنج ایسے وقت میں درپیش ہے جب بھارت افغانستان میں طالبان کے آنے کو اپنی سلامتی کے خطرات کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

بھارت اور چین کے فوجوں کے درمیان گزشتہ سال لداخ کے مقام پر ہونے والی جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے عسکری کمانڈرز ایک درجن مذاکرات کر چکے ہیں۔ ان مذاکرات سے تناؤ میں کچھ کمی تو آئی ہے اور کچھ علاقوں سے فوجوں کو واپس بھی بلایا گیا ہے لیکن تازہ ترین مذاکرات کے بعد تعطل سے اتوار کو بہت سی جگہوں سے فوجوں کو واپس بلانے کا عمل رک گیا ہے۔

مذاکرات میں تعطل کے بعد بھارت اور چین نے ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

بھارتی حکام نے الزام لگایا ہے کہ چین نے اس کی "تعمیری تجاویز" سے اتفاق کرنے سے انکار کر دیا۔ جب کہ چین نے بھارت پر "غیر حقیقی اور غیر معقول" مطالبات کرنے کا الزام لگایا ہے۔

سینٹر آف چائنیز انیلیسز اینڈ اسٹریٹیجی سے منسلک ماہر جیا دیوا رانادے نے صورت حال پر تجزیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صاف ظاہر ہے کہ چین اپریل 2020 کی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے اور بھارت اسی مطالبے پراصرار کر رہا ہے۔

ان کے بقول چین نے اب یہ بات بھارت پرچھوڑ دی ہے کہ وہ کس قسم کا موقف اختیار کرتا ہے۔

کیا چین اور بھارت کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:16 0:00

ان کے الفاظ میں اس بات کا مطلب یہ ہے کہ صورت حال اب اسی طرح برقرار رہے گی اوربھارت کے پاس دو دشمن سرحدوں کی نگرانی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ بھارت نے آرٹلری اور جنگی طیاروں کی مدد سے اندازاً پچاس ہزار فوجیوں کو لداخ کے خطے میں تعینات کیا ہے۔ اس جگہ کو،جہاں دونوں ممالک میں جھڑپیں ہوئیں تھیں، لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔

سیکیورٹی ماہرین کے مطابق بھارتی فوجیوں کی موجودہ تعداد جھڑپوں سے پہلے کی تعداد سے دو گنا زیادہ ہے۔

بھارتی فوج بلند مقامات پر جنگ کے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی اہلیت رکھتی ہے اور انتہائی دشوار گزار پہاڑی مقامات پر فرائض انجام دینے کی بھی اہل ہے، لیکن بھارت کی تشویش کا محور بڑے پیمانے پر تعمیر کیا جانے والا چینی انفراسٹرکچر ہے جو چین اپنی جانب بنا رہا ہے۔

نئی دہلی میں قائم اوبزرویشن ریسرچ فاونڈیشن میں کام کرنے والے محقق منوج جوشی کہتے ہیں کہ چین بھارت کے بارڈر کے اس پار تبت میں اپنی عسکری صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، جس میں ایئر فیلڈز کو جدید بنانا، رہائشی علاقے بنانا، ہیلی پیڈز بنانا، اسلحہ کے ذخائر اور دوسرا ملٹری انفراسٹرکچر شامل ہے۔ ان حالات کے پیش نظر انڈیئن آرمی کو ایک بڑا چیلنج در پیش ہے۔

بھارت کو افغانستان کی صورتِ حال پر کیا تحفظات ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

گزشتہ ہفتہ کے روز بھارت کے آرمی چیف ایم ایم نراوئن نے کہا تھا کہ چین کی طرف سے نیا انفراسٹرکچر بنانے سے صاف ظاہر ہے کہ چین وہاں اپنی موجودگی کو برقرار رکھے گا۔

ان کے بقول اگر چین "اس مقام پر موجود رہے گا تو ہم بھی وہیں رہیں گے۔"
انہوں نے کہا کہ ہماری طرف ہونے والی صلاحیتوں میں اضافہ اور ترقی اتنی ہی اچھی ہے جتنی کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے کی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت بھی دور دراز کے سرحدی علاقوں میں سٹرکیں اور پل بنا رہا ہے اور اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لیے پہاڑی علاقوں میں سرنگیں بھی بنا رہا ہے، اس کے مقابلے میں چین نے کہیں زیادہ تیزی سے کام شروع کر رکھا ہے۔

علاوہ ازیں چین کے مقابلے میں بھارت کے ہتھیار یا ساز و سامان اس کی اقتصادی حالت کے سکڑنے سے کمزور حالت میں ہیں۔ بھارت میں کرونا بحران کے باعث اقتصادی گراوٹ کے بعد بحالی کی رفتار سست ہے۔

خطے کی ایک ماہر رناڈے کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے اقتصادی بوجھ دسیوں ہزاروں فوجیوں کی بلند و بالا پہاڑوں میں تعیناتی ہی نہیں ہے بلکہ نئے اسلحے اور ساز و سامان کی خریداری بھی ہے تاکہ بھارت سرحدوں پر دونوں جانب سے درپیش خطرے سے نمٹنے کی حالت میں ہو۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین پاکستان کے ذریعے بھی اپنی فوجی طاقت کا اظہار کر سکتا ہے۔ چنانچہ بھارت کو دونوں ملکوں کی مجموعی طاقت کا سامنا ہو گا کیونکہ پاکستان یقیناً چین کی مدد کرے گا۔

اس کشیدگی کے پیش نظر بھارت کی ان کوششوں کو تقویت مل رہی ہے جو وہ گزشتہ دس سال سے اپنی ملٹری کوجدید بنانے کے لیے کر رہا ہے جس کا مقصد بری، بحری اور فضائی افواج کو بہتر طور پر یکجا کرنا ہے۔

حال ہی میں نئی دہلی نے چار ملکوں کے گروپ کواڈ کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کر دیے ہیں۔ کواڈ گروپ میں بھارت کے علاوہ امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں اور اس کا ایک اجلاس گزشتہ ماہ واشنگٹن میں ہوا تھا۔ اگرچہ کواڈ چین کا نام نہیں لیتا لیکن اس کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

منگل کے روزکواڈ گروپ کے ممبران نے بحر ہندمیں مشترکہ بحری مشقیں شروع کیں۔ بھارتی بحریہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ مشقیں اس گروپ کے اس عزم کو ظاہر کرتی ہیں جس کے تحت یہ ممالک انڈو پیسیفک خطے کو ایک آزاد، کھلا اور سب کو قبول کرنے والا خطہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

کواڈ گروپ میں بھار ت واحد ملک ہے جس کا چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ ہے۔

ماہر جوشی کے مطابق کواڈ چین کا سیاسی اور سفارتی طور پر مقابلہ کرنے کے سلسلے میں بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن جہاں تک معروضی حالات اور سرحدی حالات کا تعلق ہے تو بھارت کو خود ہی اس سے نمٹنا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG