رسائی کے لنکس

بھارت نے چین کو لداخ میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے: مشاہد حسین سید


سادہ کپڑوں میں ملبوس چینی فوجی لداخ کے بھارتی علاقے میں چین کا پرچم گاڑتے ہوئے۔ (فائل)
سادہ کپڑوں میں ملبوس چینی فوجی لداخ کے بھارتی علاقے میں چین کا پرچم گاڑتے ہوئے۔ (فائل)

پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری کشیدگی کی ایک بڑی وجہ جموں و کشمیر کا تنازع ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں اس معاملے پر تین بار جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ لیکن، گزشتہ سال بھارت کی طرف سے اس متنازع خطے کی بھارت کے آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے دو حصوں، لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کیا۔

اس اقدام کی ناصرف پاکستان نے سخت مخالفت کی بلکہ چین بھی اس معاملے میں ایک فریق بن کر سامنے آیا، جب بیجنگ نے لداخ سے متعلق بھارت کے اقدام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے، اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان جاری حالیہ تنازع اور کشدگی کی وجہ بھی جموں و کشمیر سے متعلق بھارت کا گزشتہ سال 5 اگست کا اقدام ہے جس نے چین کو لداخ میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے۔

اگرچہ بھارت جموں کو کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے، لیکن پاکستان اور چین اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حل طلب معاملہ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین اور بھارت کی سرحد پر ہونے والے حالیہ واقعہ کی بنیاد، ان کےبقول، بھارت کا اس خطے سے متعلق پانچ اگست 2019 کا اقدام ہے۔ جب بھارت نے جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت دی گئی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے نئی دہلی میں ضم کر لیا اور نئی دہلی نے اعلان کیا کہ کشمیر اور لداخ کو بھارت کے مرکز کےتحت کر دیا گیا ہے۔

تاہم، مشاہد حسین کے بقول، لداخ چین اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ ہے اور چین کی وزارت خارجہ اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔

اگرچہ بھارت کا موقف ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق نئی دہلی کے اقدامات بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی تیسرے ملک کو بھارت کے اندرونی معاملے میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے؛ لیکن، سینٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ بھارت کی اس متنازع اقدام سے متعلق پالیسی اور اقدمات نا صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ کے لیے باعث تشویش ہیں اور یہ دنوں ملک انہیں اپنے مفادات کے لیے کسی طور مناسب خیال نہیں کرتے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ چین لداخ کو ایک متنازع علاقہ تصور کرتا ہے۔ بیجنگ یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کی طرف سے یہاں تعمیر و ترقی کا کوئی بھی منصوبہ چین کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ یہ پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت بلتستان میں جاری چین پاکستان اقتصادی منصوبے کے لیے کسی طور پر مناسب نہیں ہوں گے۔

ان کے بقول، چین کو بھارت کے یہ اقدمات کسی طور پر قابل قبول نہیں، کیونکہ چین کے لیے سی پیک خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس پروجیکٹ میں کسی کی طرف سے کوئی بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش انھیں قبول نہیں ہو گی۔

چین کا بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں شامل لداخ وہ علاقہ ہے جس کا کچھ حصہ پاکستان نے 1963 کے معاہدے کے تحت چین کے حوالے کیا تھا اور بیجنگ بھارت کی طرف سے اس خطے کی متنازع حیثیت کو ختم کرنے کے بھارت کے گزشتہ سال کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے یکطرفہ اقدام قرار دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہی ایک وجہ ہے کہ چین کے رویے میں چین بھارت سرحد کے معاملے پر زیادہ شدت آ گئی ہے۔

اسی لیے، سینیٹر مشاہد حسین کےبقول، گزشتہ سال بھارت اس خطے سے متعلق ''متنازع اقدام کی وجہ سے چین کا کردار اس متنازع خطے کے بارے میں نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے اور یہ موقع بھی بھارت نے چین کو فراہم کیا ہے''۔

اگرچہ پاکستان بھارت کی کشیدگی اور تناؤ کی ایک بڑی وجہ کشمیر کا مسئلہ ہے اور گزشتہ سال اس خطے سے متعلق بھارت کے متنازع بیانات کی وجہ سے ناصرف دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، بلکہ جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنڑول پر دونوں ملکوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں۔

تاہم، سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ بھارت چین کشیدگی کی وجہ سے، ان کے بقول، ''اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ بھارت لائن آف کنڑول کی صورتحال کو مزید کشیدہ کرنے کے لیے کوئی کارروائی کرے''۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان پر جو دباؤ تھا اس میں شاید کمی آئے، کیونکہ، ان کے بقول، گزشتہ دو دہائیوں کے بعد ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے اور پاکستان پہلی بار چین کی وجہ سے ایک دفاعی پوزیشن میں ہے۔

ان کے بقول، ''بھارت نے پانچ اگست کو یکطرفہ اقدامات کیے؛ جس پر پاکستان کو بھی اعتراض تھا اور رہے گا اور چین کو بھی اس پر اعتراض ہے''۔

انھوں نے کہا کہ بھارت دو محاذوں پر صورتحال کا سامنا نہیں کر سکتا؛ اور اس وجہ سے بھارت کی طرف سے جو پہلے دباؤ تھا وہ نسبتاً کم ہو گا اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا امکان کم ہے، کیونکہ پاکستان کو یہ بات باعث اطمینان ہے کہ بھارت کی توجہ کا محور چین بھارت سرحدی معاملات پر مرکوز ہے۔

ادھر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین بھارت جاری کشیدگی کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارت متازع علاقے میں سڑکوں کی تعمیر کرے گا، تو چین کا اس پر اعتراض ہوگا۔

قریشی کے بقول، ''اگر نئی دہلی یکطرفہ اقدام کرے گا تو لائن آف ایکچوئیل کنڑول پر بھی تنازع ہوگا اور لائن آف کنڑول پر بھی تنازع پیدا ہوگا''۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان امن کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے امن کو داؤ پر نا لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ معاملات کو گفت و شنید سے آگے بڑھائیں، لیکن بھارت اس پرتیار نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG