رسائی کے لنکس

امریکی کانگریس میں چین کی کرنسی سے متعلق بل زیر غور


امریکی کانگریس میں چین کی کرنسی سے متعلق بل زیر غور
امریکی کانگریس میں چین کی کرنسی سے متعلق بل زیر غور

چین کے ساتھ امریکہ کے وسیع لیکن کشیدگی سے بھر پور تعلقات پر اس ہفتے امریکی سینیٹ میں بحث کی جائے گی۔ سینیٹ میں ایک بل پر غور کیا جا رہا ہے جس کے تحت چین کی کرنسی یوان کی قدر میں کمی بیشی کرنے پر چین کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔ اس مبینہ ہیر پھیر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چین کی ملکی بر آمدات کو فائدہ پہنچا یا جائے اور چین میں غیر ملکی درآمدات کے لیے مشکلات پیدا کر دی جائیں ۔

امریکی عہدے داروں کو ایک عرصے یہ شکایت رہی ہے کہ چین جان بوجھ کر اپنی کرنسی کی قدر کم رکھتا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چینی بر آمدات کو جارحانہ انداز سے فروغ دیا جائے۔ امریکہ کے وزیرِ خزانہ ٹموتھی گیتھنر کہتے ہیں’’چین کی زر مبادلہ کی شرح مقرر کرنے کی پالیسی غیر منصفانہ ہے۔ اس سے امریکہ میں اشیاء تیار کرنے والوں کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

سینیٹ میں دونوں پارٹیوں کی حمایت سے ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت کرنسی کی قدر میں کمی بیشی کو غیر ملکی مالی اعانت سمجھا جائے گا اور اس کے نتیجے میں چینی اشیاء پر امریکہ کی طرف سے محصول عائد کیا جا سکے گا۔ نیو یارک کے ڈیموکریٹک سینیٹر چارلس شومر ایک بل کے اسپانسر ہیں جسے کرنسی ایکسچینج ریٹ اوورسائیٹ ایکٹ کا نام دیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں’’چین غیر قانونی طور پر اپنی صنعتوں کو مالی امداد دیتا ہے ۔ وہ اپنے کارکنوں کو کم اجرت دیتے ہیں۔ وہ ماحولیاتی ضابطوں پر عمل نہیں کرتے، اور عالمی تجارت کے اصولوں کو مسلسل نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ وہ معاشیات کے شعبے میں اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔‘‘

شومر کہتے ہیں کہ چین نے کرنسی کے بارے میں جو طریقے اختیار کر رکھے ہیں، ان کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں امریکہ کو روزگار کے بیس لاکھ سے زیادہ مواقع کا نقصان ہوا ہے ۔

ریاست الاباما کے ریپبلیکن سینیٹر جیف سیشنز بھی اس بل کی حمایت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کا دفاع کرے۔’’ان مشکل اقتصادی حالات میں، ہمیں اپنے کسی تجارتی شراکت دار کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیئے کہ وہ ہیر پھیر کے ذریعے فائدہ اٹھائے ۔ یہ امریکی عہدے داروں کا فرض ہے کہ وہ امریکی کارکنوں کے جائز اور بنیادی مفادات کا دفاع کریں۔‘‘

بعض امریکی صنعتوں نے جو چینی مقابلے سے متاثر ہوئی ہیں، اس مسودہ قانون کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن 50 تجارتی گروپوں نے جو امریکہ کی سب سے زیادہ متحرک بر آمدی صنعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، سینیٹ کے لیڈروں کے نام خط میں کہا ہے کہ کہ اس قسم کے قانون پر چین جوابی کارروائی کرے گا اور اس لیے اسے مسترد کر دیا جانا چاہیئے۔

واشنگٹن میں قائم Cato Institute میں تجارت کے ماہر ڈان ایکنسن اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’اگر ہم یکطرفہ طور پر کوئی اقدام کرتے ہیں، تو چین کو ہماری درآمدات اور ان سے متعلق لوگوں کا روزگار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔‘‘

ایکنسن کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن امریکہ کی اس کوشش کو مسترد کردے گی کہ کرنسی کی قدر میں کمی بیشی کو مالی مدد سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ، سینیٹ کے سامنے جو بل ہے، اس سے ایسی عالمی معیشت میں جس میں مختلف ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، تجارت کے بارے میں ایک بنیادی غلط فہمی کا اظہار ہوتا ہے۔’’ایک زمانہ تھا کہ مقابلہ ہماری فیکٹریوں اور ان کی فیکٹریوں کے درمیان ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب ہم عالمگیریت کے دور میں رہتے ہیں، اور ہم جو چیزیں چین سے درآمد کرتےہیں، ان کی تیاری میں بہت سے مختلف ملکوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ پھر ان چیزوں کو چین میں آخری شکل دی جاتی ہے یا اسیمبل کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا کرنسی کی قدر کے بہت سے پہلو ہیں۔‘‘

ایکنسن نے انتباہ کیا ہے کہ ہمیں امریکہ کی ایک بہت بڑی اور منافع بخش برآمدی منڈی کو سبو تاژ نہیں کرنا چاہئیے ۔ یہ وہ بات ہے جو امریکی وزیرِ خارجہ گیتھنر نے گذشتہ سال امریکی کانگریس کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہی تھی’’چین میں اب امریکہ سے بر آمد کی ہوئی اشیاء کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کے فاضل مجموعی توازنِ تجارت میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ دنیا میں مجموعی امریکی بر آمدات کے مقابلے میں، چین کو امریکی بر آمدات میں کہیں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔‘‘

اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ چین کی کرنسی کی قدر اب بھی کم ہے ، لیکن اس نے سینیٹ کے بل کی تائید نہیں کی ہے ۔ چینی عہدے دار کہتے ہیں کہ تجارتی معاملات کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیئے اور اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ 2005 سے اب تک چینی کرنسی یوان کی قدر میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکی قانون ساز چین کی کرنسی کی قدر میں بتدریج اضافے سے مطمئن نہیں ہیں۔ اب جب کہ 2012 کا عام انتخاب قریب آ رہا ہے، بعض قانون ساز امریکہ کی اقتصادی مشکلات کا الزام کسی نہ کسی پر دھرنے کو بے قرار ہیں۔

اگر یہ بل سینیٹ میں پاس ہو گیا جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے، تو بھی اس کے قانون بننے کا امکان بہت کم ہے۔ ایوانِ نمائندگان نے، جس پر ریپبلیکنز کا کنٹرول ہے، ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ اس قانون پر غور کرے گا۔

XS
SM
MD
LG