رسائی کے لنکس

نئے سال میں چین امریکہ تعلقات کی آزمائش


تائیوان کے صدارتی انتخابات کے دوران چینی سیاحوں نے وہاں کے دورے منسوخ کردیے ہیں
تائیوان کے صدارتی انتخابات کے دوران چینی سیاحوں نے وہاں کے دورے منسوخ کردیے ہیں

چین اور امریکہ کے درمیان پیچیدہ تعلق کی اس سال آزمائش ہو گی کیوں کہ دونوں ملکوں میں قیادت تبدیل ہونے کا امکان موجود ہے۔ تا ہم ان کے تعلقات میں پہلا بڑا چیلنج تائیوان میں ہفتے کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں قیادت میں تبدیلی سے آ سکتا ہے ۔

1949 میں جب قوم پرست فورسز کو ملک کی خانہ جنگی میں شکست ہو گئی، تو وہ فرار ہو کر تائیوان پہنچ گئیں۔ اس وقت سے اب تک تائیوان پر الگ حکومت رہی ہے۔ تاہم چین اب بھی تائیوان کے جزیرے کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر تائیوان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تو وہ اس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گا۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ جزیرے کے دفاع میں اس کی مدد کرے گا۔

تائیوان کی تامکانگ یونیورسٹی میں اسٹریٹجی کے پروفیسر الیگزینڈر ہوانگ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں امریکہ اور چین کسی بھی غیر یقینی کی کیفیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو تائیوان میں انتخاب سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ’’چین اور امریکہ دونوں آبنائے تائیوان میں امن و استحکام جاری رکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ دونوں ملکوں میں سیاسی ایجنڈا بہت مصروف ہو گا۔ لہٰذا میرے خیال میں وہ چاہیں گے کہ تائیوان کے انتخاب کا داخلی سیاسی ایجنڈے پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔‘‘

چینی حکومت نے تائیوان کے انتخابات کے اس راؤنڈ کے بارے میں کھلے عام تبصرہ کرنے سے پرہیز کیا ہے۔ یہ چیز 1996 کے انتخاب سے بالکل مختلف ہے۔ اس وقت ووٹ ڈالنے سے پہلے کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی کیوں کہ چین نے اس جزیرے کے ارد گرد جنگی مشقیں کی تھیں اور اس وقت کے صدر بل کلنٹن نے دو طیارہ بردار جہاز علاقے میں بھیج دیے تھے۔

اب 2012 میں چین اور امریکہ دونوں میں سیاسی مصلحتوں کو مرکزی مقام حاصل ہور ہا ہے۔ توقع ہے کہ چین کے چوٹی کے تمام لیڈر، جن میں صدر ہوجن تاؤ، نیشنل پیپلز کانگریس کے چیئر مین وو بانگگئو اور وزیرِ اعظم وین جیا باؤ شامل ہیں، اس سال کے آخر میں کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔

اور تقریباً اسی وقت امریکہ میں، امریکی اپنے لیڈر کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوں گے۔ صدر براک اوباما دوبارہ منتخب ہو سکتے ہیں یا حزبِ اختلاف کی ریپبلیکن پارٹی کا کوئی امیدوار منتخب ہو کر ان کی جگہ لے سکتا ہے ۔

اس مہینے کے شروع میں، پینٹا گان میں مسٹر اوباما نے کہا کہ فوج کی ایک طویل المدت ترجیح کے طور پر ان کی انتظامیہ کی تمامتر توجہ ایشیا پر ہو گی۔’’ہم ایشیا پیسفک میں اپنی موجودگی کو زیادہ مضبوط بنائیں گے، اور بجٹ میں کمی سے یہ انتہائی اہم علاقہ متاثر نہیں ہو گا۔‘‘

امریکی اسٹریٹجی میں چین اور ایران کی طرف سے جنوبی چین کے سمندر اور آبنائے ہرمز میں امریکی صلاحیتوں کو بلاک کرنے کی کوششوں کا توڑ کرنا بھی شامل ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان لیو ویئنمن نے کہا ہے کہ چین کے خلاف پینٹا گان کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کی فوج کو جدید بنانے کا مقصد دفاعی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ علاقے میں امن اور خوشحالی قائم رکھی جائے۔

چین اور امریکہ کے درمیان حالیہ برسوں میں کشیدگی بڑھنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ چین کے خیال میں امریکہ جنوبی بحیرہ چین میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ یہ وہ سمندر ہے جہاں علاقے کے دوسرے ملکوں اور چین کے درمیان علاقائی تنازعات موجود ہیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر الیجانڈرو ری آئیز کہتے ہیں کہ انہیں اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ اس علاقے میں امریکی فوجوں کی تعیناتی پر چین نا خوش ہے۔ ’’اگر آپ بیجنگ میں بیٹھے ہوں، تو آپ اس طرح سوچیں گے کہ کیا امریکہ چین پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے، یا وہ علاقے میں ہمخیال ملکوں کا ایسا اتحاد بنا رہا ہے جو چین کی مخالفت میں متحد ہو سکتے ہیں؟ یہ پریشان کن بات ہے، اور چین کے نقطۂ نظر سے ، ان کا ایسا سوچنا قدرتی بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں تشویش ہونی چاہیئے۔‘‘

چین کے انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز میں بین الاقوامی امور کے ماہر کو سنگ، جو حکومت کو مشورے دیتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ آخر امریکی عزائم کیا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ ایشیا پیسفک کے علاقے کو نظر انداز کرتا رہا ہے، لیکن گذشتہ چند برسوں میں اس نے اس علاقے پر اپنی توجہ بڑھا دی ہے۔ لہٰذا ، کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے ۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک اور وجہ اقتصادی امور ہیں، اور امریکہ میں سیاسی امیدوار یہ سمجھ گئے ہیں کہ چین پر بے دریغ تنقید سے ووٹروں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے ۔

ناقدین کہتے ہیں کہ چین اپنی کرنسی یوان کی قدر مصنوعی طور پر کم رکھتا ہے تا کہ چین میں بنی ہوئِ اشیاء سستی رہیں اور چین کی بر آمدات میں اضافہ ہو، اور اسے دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت میں سبقت حاصل ہو جائے ۔

ریپبلیکن پارٹی کے چوٹی کے صدارتی امید وار مٹ رومنی نے اپنی تقریروں میں چین کو نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ منتخب ہوگئے تو فوری طور پر کارروائی کریں گے۔ ’’ صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، پہلے ہی دن، میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے، چین کو ایسا ملک قرار دے دوں گا جو کرنسی کی قدر میں ہیر پھیر کرتا ہے۔ اس طرح ہمیں ان چینی اشیاء پر جو ہمارے ملک میں آ رہی ہیں، اور نا انصافی سے امریکہ میں روزگار کے مواقع ختم کر رہی ہیں، ٹیکس لگانے کا اختیار مل جائے گا۔‘‘

اپنے اختلافات کے با وجود، امریکہ اور چین کے درمیان اعلیٰ سطح کے تبادلے جاری ہیں جن کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانا ہے ۔ امریکی وزیرِ خزانہ ٹموتھی گیتھنر حال ہی میں، بیجنگ میں چین کے اعلیٰ لیڈروں سے ملے ۔ اور چین کے نائب صدر، Xi Jinping جن کے بارے میں توقع ہے کہ انہیں اس سال کے آخر میں چین کا لیڈر نامزد کر دیا جائے گا، عنقریب امریکہ کے دورے پر آئیں گے۔

XS
SM
MD
LG