رسائی کے لنکس

چینی وزیرِ خارجہ کے دورۂ بھارت کا امکان، دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھل رہی ہے؟


چین اور بھارت کے درمیان گزشتہ دو برس سے جاری کشیدگی میں کمی کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں۔ چین نے بھارت کو تجویز دی ہے کہ وزرائے خارجہ کی سطح پر رابطے بحال کر کے تعلقات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چین نے بھارت کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں جن میں سب سے پہلے چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ای کا دورۂ بھارت شامل ہے۔


اس کے علاوہ اس سال کے اواخر میں اکتوبر یا نومبر میں چین میں برکس (برازیل، روس، بھارت، چین، ساؤتھ افریقہ) کا اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریند رمودی اس میں بالمشافہ طور پر شرکت کریں۔

بھارت نے چینی وزیرِ خارجہ کے دورۂ بھارت پر تاحال کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی سے جمعرات کو ہفتہ واری نیوز بریفنگ میں جب اس سلسلے میں میڈیا رپورٹس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس سوال پر میرے پاس مختصر جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ اس وقت اس بارے میں بتانے کے لیے میرے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔

کیا مودی چین جا سکتے ہیں؟

رپوٹس کے مطابق اگر چین کی تجاویز پر عمل درآمد ہوتا ہے تو نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ایک دوسرے ملک کا دورہ کریں گے بلکہ دونوں میں مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا اور پھر بھارتی وزیرِ اعظم کا چین کا دورہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

خیال رہے کہ چین کے وزیر خارجہ وانگ ای 26 اور 27 مارچ کو نیپال کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد وہ نئی دہلی آنا چاہتے ہیں۔

ایسا سمجھا جاتا ہے کہ چین نے صدر شی جن پنگ کی حکومت میں شامل اعلیٰ سطحی پولٹ بیور کے ارکان کے دورے کی بھی تجویز رکھی ہے۔ اس نے دونوں ملکوں میں بھارت چین ثقافتی مذاکرات کی بھی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت چین تجارت و سرمایہ کاری فورم اور انڈیا چائنا فلم فورم کی بھی تجویز رکھی گئی ہے۔

رپوٹس کے مطابق چین کا اصل مقصد برکس اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت کو یقینی بنانا ہے جس میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن بھی شرکت کر رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع حل نہیں ہوا ہے، بھارتی وزیرِ اعظم کا چین کا دورہ اور شی جن پنگ سے ملاقات سیاسی طور پر مشکل ہو گی۔

'خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ جیسا ماحول نہ بن جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00


خیال رہے کہ اس سے قبل 2019 میں برازیل میں ہونے والے برکس اجلاس میں دونوں رہنماؤں کی باضابطہ ملاقات ہوئی تھی۔ اکتوبر 2019 میں صدر شی جن پنگ نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔

اس سے قبل چین میں 2017 میں برکس کا اجلاس ہوا تھا۔ اس سے پہلے ڈوکلام میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی جسے اس اجلاس میں دور کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں حکومت کے ذرائع کے مطابق اگلے برکس اجلاس میں لداخ تنازع حل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

موجودہ عالمی حالات میں چین کا رویہ تبدیل

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی کے مرکز برائے چینی مطالعات میں استاد پروفیسر بی آر دیپک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چین کے وزیر خارجہ کے دورے کی تجویز کی دو وجوہات ہیں۔

اُن کے بقول ایک روس اور یوکرین جنگ سے پیدا شدہ صورتِ حال اور دوسری اکتوبر یا نومبر میں چین میں ہونے والا برکس کا اجلاس۔ چین چاہتا ہے کہ بھار ت کے وزیر ِاعظم نریند رمودی ذاتی طور پر اس اجلاس میں شرکت کریں۔

ان کے مطابق اقوامِ متحدہ میں روس کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ میں چین اور بھارت دونوں نے حصہ نہیں لیا تھا۔ چین میں ایسی خبریں چھپی تھیں کہ یوکرین کے معاملے پر دونوں ملکوں کا رویہ یکساں ہے۔

ان کے مطابق حالانکہ ا س معاملے پر دونوں ملکوں کی تشریح الگ الگ ہے۔ دونوں نے الگ الگ وجوہات سے ایسا مؤقف اختیار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین میں روس کا منصوبہ تقریباً ناکام ہو گیا ہے۔ نیٹو ممالک اور یورپی یونین نے اس معاملے پر روس پر دباؤ ڈالا ہے۔ ادھر چین کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کو ساتھ لینا ضروری ہے۔ اگر وہ ساتھ نہیں آتا ہے تو ممکن ہے کہ چین میں بھی عدم استحکام پیدا ہو جائے۔

افغانستان: 'علاقائی طاقتوں کا کردار بہت اہم ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:33 0:00


بھارت کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت

پروفیسر دیپک کے مطابق ان حالات کے پیشِ نظر چین نے پہل کی ہے اور وہاں کے وزیرِ خارجہ بھارت کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برکس میں وزیرِِ اعظم مودی شرکت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ڈوکلام میں جب دونوں ملکوں کے درمیان تنازع ہوا تھا تو وہ برکس اجلاس میں مودی کی شرکت کے بعد حل ہوا تھا۔ لہٰذا چین کے وزیرِ خارجہ کے مجوزہ دورے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان دوسرے شعبوں میں جو باہمی تعلقات ہیں ان کے سلسلے میں بات چیت بند ہے۔ شاید چین دوسرے شعبوں میں بھی بات چیت شروع کرنے کا خواہش مند ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ روس نے چین سے اس دورے کے بارے میں کہا ہو۔ کیونکہ اس کو بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کے بعد الگ تھلگ ہو گیا ہے اور اس معاملے میں بھارت کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر دیپک نے مزید کہا کہ اس مجوزہ دورے کے دو پہلو نظر آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر دورہ ہوتا ہے تو دونوں ملکوں میں سرحدی کشیدگی کے کم ہونے کا امکان ہے۔ بھارت چین کے سامنے یہ بات رکھ سکتا ہے کہ جب تک سرحدی کشیدگی ختم نہیں ہو گی، دوسرے معاملات بھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔

ان کے خیال میں جو موجودہ صورتِ حال ہے اس کے پیشِ نظر چین کا رویہ پہلے جیسا سخت نہیں رہا ہے۔ یہ امید کی جانی چاہیے کہ فوجیں اپنی پوزیشنوں سے واپس ہوں گی۔

ثالثی کے امکانات؟

پروفیسر دیپک کا کہنا تھا کہ یوکرین اور روس کے سلسلے میں جو نئی صورتِ حال سامنے آئی ہے اس کے پیشِ نظر بھی حالات بدلے ہیں۔ تبدیل شدہ حالات میں روس اور یوکرین کے درمیان بھارت کی ثالثی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ یہ جنگ طول پکڑے۔ اس کے طول پکڑنے سے بھارت کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چینی وزیرِ خارجہ کے مجوزہ دورے کے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے ایک علامتی پیغام دینا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو تنازعات ہیں وہ دو طرفہ ہیں اور انہیں باہمی مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے۔

باہمی کشیدگی کے خاتمے کا امکان ہے؟

اس دورے کا دوسرا پیغام یہ ہے کہ چونکہ روس کے ساتھ دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات ہیں اور یوکرین بحران کے سلسلے میں دونوں امریکہ اور مغرب کے مقابلے میں ایک پیج پر نظر آتے ہیں لہٰذا وہ روس اور یوکرین میں مصالحت کرانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی وزیر خارجہ کے بھارت کے دورے سے سرحدی کشیدگی کے ختم ہونے کے امکانات زیادہ نہیں ہیں۔ جب تک چین اپنی افواج اور ہتھیار نہیں ہٹائے گا کشیدگی کم نہیں ہو سکتی۔

بھارت اور چینی افواج کے درمیان 2020 میں سرحدی جھڑپوں کے بعد تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔
بھارت اور چینی افواج کے درمیان 2020 میں سرحدی جھڑپوں کے بعد تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔


ان کے خیال میں دوسری بات یہ ہے کہ بھار ت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے پاکستان کے کنٹرول والے کشمیر سے گزرنے پر اعتراض ہے۔ بھار ت کا دعویٰ ہے کہ وہ کشمیر بھی اس کا ہے۔ ان کے خیال میں اس معاملے پر دونوں میں اتفاق رائے نہیں ہو سکتا اور یہی وجہ ہے کہ باہمی کشیدگی کے ختم ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر چین کے وزیر خارجہ کا بھارت دورہ چین کے مقصد کو پورا کرتا ہے تو یہ چین کی جیت مانی جائے گی۔ تاہم اگر دورے سے باہمی تنازعات کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی ہے تو اس وقت بھارت یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ دونوں ملک یوکرین روس تنازع کو حل کرنے میں معاون بن سکتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک روس یہ نہیں محسوس کرتا کہ یوکرین پر حملے سے وہ جو چاہتا تھا وہ حاصل ہو گیا ہے، اس وقت تک بھارت ہو یا چین دونوں کی ثالثی کے امکانات کم رہیں گے۔

جہاں تک بھارت اور چین کے درمیان تنازع کا تعلق ہے تو بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ چین کی جانب سے ایل اے سی کو یک طرفہ طور پر بدلنے کی کوشش کی وجہ سے سرحدی کشیدگی پیدا ہوئی۔ وہ چین پر باہمی معاہدوں اور پروٹوکول کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سرحدی تنازع کا باہمی رشتوں پر منفی اثر پڑا ہے۔

چینی وزیر خارجہ نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ حالیہ برسوں میں چین اور بھارت کے باہمی تعلقات کو دھچکہ لگا ہے۔ انہوں نے مذاکرات کی مدد سے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔

دونوں ملکوں میں رواں ماہ کی 11 تاریخ کو ایل اے سی پر چوشول مولڈو کے مقام پر کمانڈر سطح پر مذاکرات کا 15 واں دور مکمل ہوا ہے۔ مذاکرات کے دوران فریقین نے ایل اے سی پر مغربی سیکٹر میں امن و استحکام کے قیام پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG