رسائی کے لنکس

'سوچا تھا چین جا کر زندگی بہتر ہو جائے گی'


مہک پرویز کی شادی کی تصویر
مہک پرویز کی شادی کی تصویر

مہک پرویز ایک عام سی مسیحی لڑکی ہے جو پچھلے پانچ برس سے اسلام آباد کی حنا مارکیٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہتی تھی اور ایک پارلر میں اٹھارہ ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام کرتی تھی۔ اس کا والد ایک رکشہ ڈرائیور ہے۔ اس کا بڑا بھائی فوج میں ہے اور دو بہنیں پہلے سے شادی شدہ ہیں۔

گزشتہ سال نومبر میں مہک اپنے آبائی شہر فیصل آباد میں ایک رشتہ دار کی شادی پر گئی جہاں اس کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔

یہ شادی ایک مسیحی لڑکی اور چینی باشندے کے درمیان تھی۔ مہک کی ملاقات وہاں موجود لوگوں سے ہوئی جنہوں نے بتایا کہ شادی کے بعد چینی شخص اپنی دلہن کو چین لے جائے گا۔ اٹھاہ سالہ مہک کے دل میں بھی کسی چینی لڑکے سے شادی کرنے اور چین جانے کی خواہش ابھری۔ اسے لگا کہ اس طرح اس کی زندگی بھی بہتر ہو جائے گی اور وہ چین جا کر اپنے والدین اور بہنوں کی مدد کر سکے گی۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے مہک پرویز نے بتایا کہ اسی تقریب میں وہ چند ایسے افراد سے ملی جو پاکستانی لڑکیوں اور چینی باشندوں کے درمیان شادیاں کرواتے ہیں۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار چینی افراد اور ان کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی کے سامنے کیا۔

گزشتہ روز پاکستان کے قانون ساز اداروں نے ایک درجن سے زائد ایسے افراد کو پاکستانی لڑکیوں کو شادیوں کا جھانسا دے کر چین لے جانے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے جن میں لاہور سے حراست میں لئے جانے والے آٹھ چینی شہری بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے راولپنڈی سے بھی ایک گروہ کو گرفتار کیا ہے جو تجارت کی غرض سے پاکستانی لڑکیوں کو چین لے جاتا تھا۔

ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق، یہ گروہ غریب پاکستانی لڑکیوں کو جھانسا دے کر چین لے جاتے اور وہاں ان سے جسم فروشی کرواتے یا ان کے جسمانی اعضا فروخت کر دیتے۔

لاہور میں پاکستانی مسیحی کمیونٹی کے ایک سرگرم رکن اور صحافی سلیم اقبال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پچھلے چند برسوں میں سات سے آٹھ سو مسیحی لڑکیوں کی شادیاں چینی باشندوں سے کروائی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر اوقات لڑکی کے خاندان کو بتایا جاتا ہے کہ چینی شخص کسی بڑے شہر کا رہائشی ہے، اچھی ملازمت کرتا ہے، وہ شادی کے تمام اخراجات برادشت کرے گا۔ لڑکی کے والدین کو پاکستان میں گھر بھی لیکر دے گا اور لڑکی چین میں اچھی زندگی بسر کرے گی اور اپنے خاندان کی مدد بھی کر سکے گی۔

تاہم، سلیم چین سے واپس آنے والی مسیحی لڑکیوں سے حاصل کی جانے والی معلومات کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شادی کرنے والے اکثر چینی لڑکے نہ تو مسیحی ہوتے ہیں نہ ہی ان کا کوئی خاص ذریعہ آمدن ہوتا ہے۔ وہ دور دراز دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

جس لڑکے سے مہک نے شادی کی حامی بھری وہ تو معذور بھی تھا۔ مہک نے بتایا کہ وہ لوگ سب کچھ جلدی جلدی کرنا چاہتے تھے۔ ’’جب سب کچھ طے پا گیا تو انہوں نے مجھے میڈیکل کے لئے لاہور بلایا۔ میں اپنے والد کے ساتھ لاہور گئی۔ میرے والد نے مجھے شادی کرنے سے منع کیا، مگر میں نے انہیں مطمئن کر لیا‘‘۔

گزشتہ برس 19 نومبر کو فیصل آباد میں مہک کے شادی چینی لڑکے سے ہوگئی۔ جس پاکستانی مسیحی پادری نے ان کے شادی کی رسم ادا کی مہک کا خاندان اسے نہیں جانتا تھا اور اس کا بندوبست بھی چینی گروہ نے کیا تھا۔

مہک بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد وہ لاہور آ گئی اور اسے ’ڈیوائین گارڈن‘ میں رکھا گیا، جہاں چینیوں نے چند گھر کرائے پر لے رکھے ہیں۔ وہاں وہ کئی اور لڑکیوں کے ساتھ رہائش پذیر رہی۔ اسی دوران لڑکیوں سے حلفیہ بیان لیا جاتا کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کر کے چین جانا چاہتی ہیں۔ پھر ان کے سفری دستاویز تیار کئے جاتے۔

انھوں نے بتایا کہ ’’اگلے ہی روز مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں۔ دوسری لڑکیوں نے قصے بتائے تھے۔ میں گوگل ٹرانسلیشن کے ذریعے اپنے خاوند سے اس بارے میں پوچھتی تھی مگر وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیتا تھا۔‘‘ وہیں مہک کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص سے اس کی شادی ہوئی ہے اس کی پاکستان میں ہی دو اور شادیاں بھی کرائی جا چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب اس نے چینی گروہ کو بتایا کہ وہ چین نہیں جانا چاہتی تو وہاں ان کے پاکستانی ساتھی انس نے اسے بہت ڈرایا دھمکایا اور بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ بقول مہک ’’میں بہت پریشان تھی اور میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا‘‘۔

سلیم اقبال نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ایسی ہی کہانیاں کچھ دوسری لڑکیوں نے بھی بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چینی گروہ انس بٹ کے ذریعے لڑکیوں کو ڈراتا دھمکاتا۔

مہک نے پوری صورتحال کو سمجھتے ہوئے ہوشیاری سے کام لیا اور گروہ کے اراکین پر پریشانی ظاہر نہیں ہونے دی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد جب اس کے والد اس سے ملنے آئے تو وہ اس کے ساتھ اسلام آباد آ گئی۔

سلیم کہتے ہیں کہ چینی باشندوں سے شادی کرنے والی بیشتر لڑکیاں حاملہ ہیں۔ وہ ان بچوں کا کیا کریں گی۔ اور اگر طلاق لے بھی لیتی ہیں تو ان سے اور کون شادی کرے گا۔

نو بیاہتا دلہن مہک پرویز اب اپنے چینی خاوند سے طلاق حاصل کرنے کی غرض سے قانونی چارہ جوئی کے بارے میں سوچ رہی ہے اور اسے چین نہ جانے کا کوئی افسوس نہیں۔

XS
SM
MD
LG