رسائی کے لنکس

چرچ آف انگلینڈ کا غلاموں کی تجارت میں سرمایہ کاری کا اعتراف؛’ہم 200 سال انکار کرتے رہے‘


چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ آرچ بشپ جسٹن ویلبی۔ فائل فوٹو۔
چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ آرچ بشپ جسٹن ویلبی۔ فائل فوٹو۔

چرچ آف انگلینڈ نے اٹھارہویں صدی میں غلاموں کی خریدوفروخت کے کاروبار میں سرمایہ کاری کا اعتراف کرتے ہوئے ماضی کی ’شرمناک‘ غلطیوں کے ازالے کے لیے10 کروڑ پاؤنڈز کا فنڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سرمایہ کاری کی نگرانی کرنے والے کمشنرز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اعلان کردہ 10 کروڑ پاؤنڈز (12 کروڑ ڈالر سے زائد) چرچ کی غلاموں کے کاروبار سے تعلق پر تحقیق، اس تجارت کے اثرات اور غلامی سے متاثر ہونے والی کمیونٹیز کے لیے منصوبوں میں لگائے جایئں گے۔

بدھ کو جاری ہونے والی اس رپورٹ سے قبل چرچ نے گزشتہ برس جون میں اپنے پیش رو سرمایہ کاری فنڈ ’کوئن اینیز باؤنٹی‘ کی رپورٹ بھی جاری کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح اٹھارہویں صدی میں چرچ نے ساؤتھ سی نامی کمپنی کے غلاموں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی۔

چرچ کمشنرز کے چیف ایگزیکٹو گیرتھ موسٹن کا بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب یہ سرمایہ کاری کی جارہی تھی تو چرچ سرمایہ کاری فنڈ کو واضح طور پر یہ معلوم تھا کہ ساؤتھ سی کمپنی غلاموں کی تجارت کرتی ہے۔ ان کے بقول یہ ہمارے لیے انتہائی شرم کی بات ہے جس پر ہمیں معافی مانگنی چاہیے۔

چرچ کی سرمایہ کاری سے متعلق جاری ہونے والی یہ رپورٹ کوئن اینز باؤنٹی کے دستاویزی ریکارڈ پر فارنزک اکاؤنٹنٹس اور ماہرین کی تحقیق سے حاصل ہونے والے شواہد پر مبنی ہے۔

واضح رہے کہ سلطنت نے 1704 میں کوئن اینز باؤنٹی کے نام سے ایک سرمایہ کاری اسکیم کا آغاز کیا تھا۔ اس کا مقصد سرمایہ کاری کے ذریعے چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ کم آمدن رکھنے والے مذہبی پیشواؤں یا پادریوں کے لئے مالی وسائل پیدا کرنا تھا۔ 1836 میں برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ کے اثاثوں اور مالی امور کے انتظامات کے لیے کلیسائی کمشنرز مقرر کیے گئے۔ 1948 میں کوئن اینز باؤنٹی کو کمشنرز کی اسی کونسل میں ضم کردیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق کوئن اینز باؤنٹی کے لیے کئی ایسے افراد کی جانب سے بھی عطیات موصول ہوتے تھے جو بحرِ اوقیانوس میں ہونے والی غلاموں کی تجارت سے منافع کما رہے تھے۔ اس کاروبار میں خاص طور پر شمالی امریکہ میں کاشت کاری کے لیے افریقہ سے لوگوں کو غلام بنا کر لایا جاتا تھا۔

رپورٹ سے متعلق منگل کو چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ آرچ بشپ آف کینٹربری جسٹن ویلبی کا کہنا تھا کہ وقت آپہنچا ہے کہ چرچ اپنے ’شرم ناک ماضی‘ میں کیے گئے اقدامات کا ازالہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں راست بازی کے ساتھ حال اور مستقبل کا سامنا کرنے کے لیے چرچ کے ماضی سے متعلق شفافیت لانی چاہیے۔

واضح رہے کہ چرچ آف انگلینڈ کیتھولک اور ایسٹرن آرتھوڈوکس کے بعد مسیحیوں کا تیسرا بڑا فرقہ ہے۔اس سے ساڑھے آٹھ کروڑ مسیحی وابستہ ہیں۔چرچ آف انگلینڈ کا قیام سولہویں صدی میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت کے برطانوی بادشاہ ہنری ہشتم کی اہلیہ کیتھرین سے کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور وہ اپنی وراثت کے لیے نرینہ اولاد کے خواہش مند تھے۔

اس کے لیے وہ کیتھرین سے علیحدگی اختیار کرکے ایک اور شادی کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت کے پاپائے روم کلیمنٹ ہفتم نے کیتھرین کے ساتھ شادی منسوخ کرنے کی ہنری کی خواہش تسلیم نہیں کیا جس کے بعد ہنری نے 1534 میں برطانوی پارلیمنٹ سے قانون سازی کرا کے چرچ آف انگلینڈ کو رومن کیتھولک چرچ کی ماتحتی سے نکال دیا جس کے بعد مسیحیت کا ایک علیحدہ کلیسا یا چرچ وجود میں آگیا۔

اس قانون کے تحت برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ اس چرچ کے سربراہ ہوتے ہیں۔ برطانوی فرماں روا وزیرِ اعظم کے مشورے سے چرچ آف انگلینڈ کے بشپس اور آرچ بشپس کا تقرر کرتے ہیں۔

سیاہ فاموں کی غلامی کے دور کی یاد دلاتا جارج واشنگٹن کا گھر
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:35 0:00

دو سال تک انکار

سال 2020 میں امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں غلامی سے متعلق نئی بحث کا آغاز ہوا تھا۔ اس کے بعد امریکہ اور کئی یورپی ممالک میں غلاموں کی تجارت سے وابستہ رہنے والی شخصیات کے مجسمے گرانے کی مہم بھی شروع ہوئی۔

اسی مہم کے بعد برطانیہ میں 2020 میں سترہویں صدی میں غلاموں کی تجارت کرنے والوں کے مجسمے گرانے کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے برطانیہ کے نوآبادیاتی ماضی اور غلامی سے اس کے تاریخی تعلق پر تنقید و تحقیق پر زور دیا جانے لگا۔

امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک سے غلامی سے متاثر افراد اور کمیونٹیز کی مالی تلافی کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ مختلف مطالبات اور جائزوں کے مطابق تلافی کی یہ رقوم اربوں سے کھربوں ڈالر کے درمیان بنتی ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' سے بات کرتے ہوئے تاریخ دان ڈیوڈ اولوسوگا نے چرچ آف انگلینڈ کی جانب سے غلاموں کی تجارت میں سرمایہ کاری پر اظہار معذرت اور فنڈز کے اجرا کو غیر معمولی پیش رفت قرار دیا ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ 200 برس میں ہم اس بارے میں حالتِ انکار میں تھے۔ تاریخ کو چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ دہائیوں تک ہم اس خیال کو نظر انداز کرتے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے ماضی کی وراثت میں ملنے والی دولت کے ساتھ کچھ ذمے داریاں بھی ورثے میں ملی ہیں۔

امریکہ: 'میں اب بھی سیاہ فاموں کو گولیوں سے مرتے دیکھتی ہوں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00

چرچ نے غلاموں کی تجارت میں اپنے کردار سے متعلق حقائق سامنے لانے کے لیے اس سے متعلقہ اپنے آرکائیو، دستاویزات اور اشیا وغیرہ لندن میں نمائش کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان اشیا میں غلام بنائے گئے ایک فرد کا 1723 میں چرچ کے سربراہ کے نام لکھا گیا ایک خط بھی شامل ہے۔

چرچ آف انگلینڈ نے 2021 میں اعلان کیا تھا کہ وہ غلاموں کی تجارت سے تعلق کی بنا پر ساڑھے 12 ہزار گرجا گھروں اور 42 کیتھڈرل کا جائزہ لے رہا ہے۔

اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG