رسائی کے لنکس

پشاور دھماکے، ہلاکتوں میں اضافہ، سنیما ہالز آسان ہدف بن گئے


منگل کے روز پجگی روڈ پر واقع جس سنیما ’شمع‘ کو نذر ِآتش کیا گیا ہے وہ پہلے بھی ایسے کئی ’ستم‘ جھیل چکا ہے۔ یہ ’بلور خاندان‘ کی ملکیت ہے۔ اسے آج سے قبل آخری مرتبہ سال 2013ء میں 21 ستمبر کو ’یوم ِعشق ِرسولﷺ‘ کے موقع پر نذر آتش کیا گیا تھا۔

پشاور میں منگل کی دوپہر شمع سنیما میں ہونے والے تین دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 13 ہو گئی ہے۔ واقعے کے مزید 2 زخمی منگل کی رات زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔ تحریک ِطالبان پاکستان نے ان دھماکوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔

ادھر شہر کے سنیما ہالز کو بار بار نشانہ بنانے کے واقعات سے یوں لگتا ہے کہ گویا سنیما ہالز دہشت گردوں کا آسا ن ہدف ہوگئے ہیں۔ صرف 9 دن کے دوران سنیما ہالز پر بم حملوں کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

دوسری جانب شہر کے رہائشیوں کو ارباب ِاختیار سے ناراضگی پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے بار بار حملوں کے باوجود سیکورٹی کا ابھی تک کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا۔

سنیماہالز پر حملوں کے حوالے سے کچھ لوگوں کا یہ گمان بھی ہے کہ عبادت گاہوں پر حملوں کے بعد سنیماہالز پر حملوں کا مقصد ’بیلنس برابر‘ کرنا ہے کیوں کہ اکثر جگہوں سے دبے دبے انداز میں یہ تنقید کی جارہی تھی کہ حملے عبادت گاہوں میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔ سنیما ہالز میں کیوں نہیں۔

سنیماہالز۔۔سب سے آسان ہدف
پاکستان میں سنیما ہالز پر بم حملے، انہیں نذر آتش کرنے اور کسی بھی واقعے کا غصہ سنیما ہالز پر اتارنے اور انہیں توڑنے پھوڑنے کا رجحان نیا نہیں ہے ۔ 21 ستمبر 2012ء کو غیر ملکی گستاخانہ فلم کی نمائش کے خلاف احتجاج کے دوران بھی ملک بھر کے کئی سنیماہالز کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ صرف 9دن پہلے 2فروری کو بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آچکا ہے جس میں کم از کم 5افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

منگل کے روز پجگی روڈ پر واقع جس سنیما ”شمع“ کو نذر آتش کیا ہے وہ پہلے بھی ایسے کئی ’ستم‘ جھیل چکا ہے۔ یہ ’بلور خاندان‘ کی ملکیت ہے ۔ اسے آج سے قبل آخری مرتبہ سال 2013ء میں 21ستمبر کو ’یوم عشق رسول‘ کے موقع پر نذر آتش کیا گیاتھا۔

سال دوہزار بارہ میں کراچی کے چھ قدیم سنیماہالز کو بھی بیک وقت نذ ر آتش کردیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض سنیما ہالز کا افتتاح تو بانی پاکستانی کی بہن فاطمہ جناح کے ہاتھوں ہوا تھا ، یہ اس دور کی یادگار تھے مگر آگ بگولہ لوگوں نے ان یادوں کو بھی آگ میں جھلسا دیا۔

سستی ترین تفریح
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت اور پاکستان میں سنیما سب سے سستی تفریح کا ذریعہ ہیں۔ بے ہنگم مہنگائی کے باوجود ان سنیماگھروں کے ٹکٹ آج بھی نہایت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان بلال محمد خان نے وی او اے کو بتایا کہ، ’پشاور میں نوے کی دہائی تک ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ فلم دیکھنے کا رجحان عام تھا۔اس دور میں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کوہوا کرتی تھی اس لئے ویک اینڈ پر ان سنیماہالز پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اب سنیماہالز کا رخ کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوگئی ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں بلال کا کہنا تھا کہ، ’پشاور میں سنیماہالز کو نشانہ بنانے کا سبب وہ غیر اخلاقی فلمیں بھی ہوسکتی ہیں جن کے ’ٹوٹے‘ فلم کے درمیان میں بلاروک ٹوک دکھائے جاتے ہیں ۔ اس سے کچھ مذہبی حلقے یا مخصوص سوچ رکھنے افراد ناراض رہتے ہیں اس لئے یہ حملے ان کی جانب سے ایک ’سبق‘ بھی ہوسکتے ہیں‘۔

حملوں کی ذمے دار۔۔تیسری قوت؟؟
پشتو فلموں کی تاریخ پر دسترس رکھنے والے کراچی کے مقامی سینئر صحافی محمد شاہد خان عرف ’میم شین خ‘ نے بھی وائس آف امریکہ کے نمائندے سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے بتایا کہ، ’حالیہ مذاکرات کے پس منظر میں جبکہ خود طالبان ان حملوں سے لاتعلقی ظاہر کرچکے ہیں لگتا یہ ہے کہ کوئی تیسری قوت یا طالبان کا ہی کوئی ممکنہ دھڑا یہ حملے کرا رہا ہے۔ روس کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے اور سن 2011ء کے حملوں کے بعد سے وہاں متعدد بار سی ڈیز کی دکانوں پر بھی حملے ہوچکے ہیں۔ ان حملوں میں پوری پوری دکانیں اڑا دی گئیں جبکہ کچھ دکانداروں اور مارکیٹوں کو دھمکیاں بھی ملیں۔ اس کے بعد سے سی ڈیز کا رجحان کم ہوگیا لیکن سنیما ہالز اب بھی بہت سے لوگ جاتے ہیں جو اس کے مخالف لوگوں کو پسند نہیں۔ ہوسکتا ہے وہی لوگ ان حملوں میں ملوث ہوں‘۔

فحاشی کا غلبہ
پاکستان کی پشتو فلمیں اور ان میں کی جانے والی عکس بندی پر فحاشی کا غلبہ طاری رہا ہے۔ یا کم از کم ان پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ چونکہ انہیں دیکھنے والوں کی اپنی ایک الگ کلاس ہوتی ہے لہذا اخلاقیات کازیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اس لئے بھی انہیں دیکھنا عام طور پر ’گناہ ِکبیرہ‘ سمجھاجاتا ہے اور دائیں بازو یا مذہب پرست لوگوں کے نزدیک ان کی کوئی گنجائش نہیں حتیٰ کہ وہ انہیں دیکھنے یا پسند کرنیوالوں سے بھی اجتناب برتتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG