رسائی کے لنکس

موسمیاتی تبدیلی: 2022 میں پاکستان سمیت دنیا بھر کو 268 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انشورنس کی ایک بڑی کمپنی، ’سوئیس ری‘ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ رواں برس آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے نقصان کا تخمینہ گزشتہ برس سے 12 فیصد کم ہو کر 268 ارب ڈالر رہا۔ گزشتہ سال شدید موسمی اثرات سے پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 300 ارب ڈالر تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جہاں شدید بارشوں کی وجہ سے اس برس پاکستان کا تقریباً ایک تہائی رقبہ زیر آب آگیا وہیں امریکہ میں تین سمندری طوفانوں، یورپ اور چین میں خشک سالی اور افریقہ میں خشک سالی سے پیدا ہونے والے قحط نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔

اس برس امریکہ میں ایسے طوفانوں کی تعداد جن سے کم از کم 1 ارب ڈالر کا نقصان ہوا 15 رہی۔ گزشتہ برس یہ تعداد 22 تھی۔

اے پی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی، جس میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی پیدا ہو رہی ہے، اب اس قدر تسلسل سے تباہی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں کہ یہی اعداد و شمار جو 20 برس پہلے ہوشربا قرار دیے جا سکتے تھے، اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔

سوئس ری کے مارٹن برٹوگ کے مطابق اگر گزشتہ چھ برس کو دیکھا جائے تو یہ خصوصی طور پر بہت برے سال تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے دنیا پر حکمرانی کی تبدیلی ہو رہی ہو، یا جیسے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ نیا معمول ہے۔ ان کے مطابق ان برسوں میں ہر برس تباہی سے ہونے والے مالی نقصان میں 5 سے 7 فیصد اضافہ ہوا۔

امریکہ کے موسمیاتی تبدیلی کے ایلچی جان کیری کا کہنا ہے کہ تباہی سے پیدا ہونے والے نقصان کے مسلسل بڑھنے سے کاربن کے اخراج کو روکنے کا کیس مضبوط ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مزید رقم اس لیے صرف کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ جو ہمیں کرنا چاہیے ، وہ ہم نہیں کر رہے۔ اے پی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے جلدی نہ کی تو ہمیں زیادہ برے حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ رقوم خرچ کرنی پڑیں گی۔

بیلجئیم کی کیتھولک یونیورسٹی میں سینٹر فار ریسرچ آن دی ایپی ڈیمیالوجی آف ڈزاسٹرز چلانے والی ڈبراٹی گوہا ساپر نے اے پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جن نقصانات کا ذکر ہے ان میں سے اکثر کو انشورنس حاصل تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ کسی بھی تباہی کے نقصانات اس بات پر منحصر ہیں کہ وہ علاقہ کس قدر ترقی یافتہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار ڈالرز میں ہیں، انسانی جانوں سے متعلق نہیں ہیں، لہذا یہ حالات کی درست تصویر نہیں ہے۔

یونی ورسٹی آف واشنگٹن میں صحت اور موسم کی پروفیسر کرسٹی ایبی نے کہا کہ جن جگہوں کو انشورنس حاصل ہے وہ اس انفراسٹرکچر کا بہت کم حصہ ہیں جنہیں پاکستان میں نقصان ہوا۔ ان کے مطابق اس سے نقصان کا تخمینہ حقیقت سے بہت کم ہوجاتا ہے اگرچہ اس سانحے میں 1700 افراد ہلاک ہوئے۔

کیپ کوڈ میں وڈول کلائیمٹ ریسرچ سینٹر میں کلائیمیٹ سائنس دان جینیفر فرانسس کا کہنا تھا کہ اس برس پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مسلسل نقصان ہوا۔ جنوری میں برفانی طوفان سے 23 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد شدید گرمی کی ایک لہر آئی جس کے بعد سیلاب کی وجہ سے 1700 افراد ہلاک ہوئے۔

برٹوگ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں شہری آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے آبادیاں پہلے سے زیادہ سخت موسم کی زد میں آ رہی ہیں جن کی وجہ سے تباہی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق ساحلوں اور پانی کی دیگر گزرگاہوں پر مزید تعمیرات کی وجہ سے آبادیاں پہلے سے زیادہ طوفانوں اور سیلاب کی زد میں ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG