امریکہ کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے سائنسدان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ورچوئل کولونوس کوپی کے دوران سی ٹی اسکین سے مریض کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔وہ ڈاکٹر جو اس طریقہ کار کے حق میں ہیں، کہتے ہیں کہ عام کولونوسکوپی کی نسبت یہ طریقہ نہ صرف بہتر بلکہ کم خرچ بھی ہے۔لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ سی ٹی اسکین میں تابکاری کے خطرات موجود ہیں۔
کولن کینسر چند مہلک ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ابتدا میں اکثر اس بیماری کی علامتیں بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔اس لیے ڈاکٹر پچاس سال سے اوپر افراد کو ممکنہ کینسر کی دریافت کے لیے کولونوسکو پی کا مشورہ دیتے ہیں۔عام کولونوسکو پی کولن میں ایک لمبی لچکدار ٹیوب ڈال کر کی جاتی ہے۔ اس ٹیوب کے سرے پر فائبر آپٹک سے بنا ہوا وڈیو کیمرا نصب ہوتا ہے۔اس ٹیوب کو کولونو اسکوپ کہا جاتا ہے۔۔اس کولونواسکوپ کے ذریعے ڈاکٹر کولن کے اندرونی مناظر ایک وڈیو مانیٹر پر دیکھ سکتے ہیں۔۔اور اس دوران کسی ابنارمل پھیلاؤ کو دور بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہی مقصد ایک اور نسبتا سہل طریقے سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے جسے ورچوئل کولونوسکوپی کہا جاتا ہے اور جو سی ٹی اسکین کے ذریعے پریض کے پیٹ سے ایکس ریز گزار کر کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ماہا دیپا مہوش، جوکہ جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں پروفیسر آف ریڈیالوجی ہیں، کہتی ہیں کہ ورچوئل کولونوسکوپی سے کئی مریضوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کئی مریض ڈاکٹر سےعام کولونوسکوپی کے بارے میں بات کرنے کے بعد واپس نہیں آتے کیونکہ وہ سوئیوں اور ٹیوبز سے خائف ہوتے ہیں اور اس طرح وہ علاج سے دور ہوجاتے ہیں اور کینسر کا شکار ہوجاتے ہیں۔لیکن ورچوئل کولونوسکوپی اسکریننگ کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے یہ ہی وجہ ہے کہ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ بھی اس طریقہ کار کا مشورہ دیتا ہے۔
اگر ورچوئل کولونوسکوپی کے دوران کوئی ابنارمل پھیلاؤ دریافت ہوتا ہے تو پھر عام طریقے سے کولونوسکوپی ضروری ہوجاتی ہے تاکہ اس پھیلاؤ کو نکال دیا جائے۔ لیکن کچھ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ورچوئل کولونوسکوپی سے مریض غیر ضروری طور پر تابکاری کا شکار ہوسکتا ہے۔یہ طریقہ کار تقریبا سینے کے تقریباً 400 ایکس ریز کرانے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر جولیان نکولس فوڈ ا ینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے ایک سابق سائنٹسٹ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ورچوئل کولونوسکوپی کا کیس اتنا مضبوط نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کولن کینسر کے لیے سی ٹی اسکین کے استعمال کے مؤثر اور محفوظ ہونے کے لیے ہمارے پاس ضروری سائنسی شواہد نہیں ہیں۔
ڈاکٹر نکولس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایف ڈی اے چھوڑنے سے پہلے سی ٹی اسکین کے بہت زیادہ استعمال کےخطرات سے خبردار کیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ایف ڈی اے کے سائنسدان اور ڈاکٹرز کا سی ٹی اسکین کی اس تنقید پر کافی مذاق اڑایا گیا تھا۔
ایف ڈی اے کے ڈاکٹر جیفری شورین اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مریض کولونوسکوپی کے خطرات سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ مارکیٹ میں آنے والی نئی ٹیکنالوجیز محفوظ اور مؤثر ہیں۔ لیکن وہ کسی مخصوص کیس میں کسی مخصوص مریض پر کس طرح استعمال ہو سکتی ہے اسکا فیصلہ اسکا ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے۔
امریکہ میں ہر سال سات کروڑ سی ٹی اسکین کیے جاتے ہیں ، اور حکومت پر سرکاری سطح پر اسکے محفوظ ہونے کے اعلان کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔