رسائی کے لنکس

آرمی چیف سے صدارت تک، پرویز مشرف کے متنازع فیصلے


پرویز مشرف نے مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کو آرمی ہاؤس بلا کر استعفیٰ طلب کیا تھا جس پر ملک بھر میں وکلا تحریک شروع ہو گئی تھی۔
پرویز مشرف نے مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کو آرمی ہاؤس بلا کر استعفیٰ طلب کیا تھا جس پر ملک بھر میں وکلا تحریک شروع ہو گئی تھی۔

تاریخ کسی بھی حکمران کو اس کے فیصلوں کی بنیاد پر یاد رکھتی ہے یا فراموش کردیتی ہے۔ پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف اور صدرِ مملکت اپنے دور میں کئی ایسے اقدامات کیے تھے جو ان کے طویل سفر اقتدار کے اہمِ سنگِ میل قرار دیے جاتے ہیں۔

لیکن وہیں انہوں نے کئی ایسے اقدامات کیے جن سے جنم لینے والے تنازعات نے ان کے اقتدار کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ کا رُخ بھی متعین کیا۔ ان فیصلوں کو ان کے ناقد لمحوں کی وہ غلطیاں قرار دیتے ہیں جن کی سزا صدیوں کو بھگتنا پڑتی ہے جب کہ پرویز مشرف کے حامیوں کے نزدیک یہ اقدامات ’حالات کا تقاضا‘ تھے۔

یہ فیصلے تاریخ میں کسی کے لیے یادگار اور کسی کے لیے متنازع ہوسکتے ہیں لیکن ایک فیصلہ تاریخ کا بھی ہے جو کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے تبدیل نہیں ہوتا۔

کارگل آپریشن

جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بننے کے بعد پہلی مرتبہ کارگل آپریشن کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنے۔ کارگل آپریشن کا تعلق پاکستان اور بھارت کے درمیان اپنے قیام کے وقت ہی سے کشمیر پر شروع ہونے والا تنازع تھا۔ کشمیر پر ہونے والے تنازع میں سیاچین گلیشیئر کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1949 میں ہونے والے ’معاہدۂ کراچی‘ میں سیاچن میں این جے 9842 کے مقام کو جنگ بندی لائن تسلیم کرلیا گیا اور بعد ازاں 1972 میں شملہ معاہدے کے تحت اسے ’لائن آف کنٹرول‘(ایل او سی) کا نام دیا گیا۔

بھارت نے 1984 میں آپریشن 'میگھ دوت' اور بعد ازاں 1987 میں آپریشن 'راجیو ' کرکے ایل او سی سے آگے بڑھ کر تقریباً 70 کلو میٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔

اس کے جواب میں پاکستان نے گلیشیئر سے متصل وادیوں میں اپنی فوج روانہ کردی اور اس طرح یہ دنیا کا بلند ترین محاذِ جنگ بن گیا جو سطح سمندر سے لگ بھگ 20 ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ بھارت کی جانب سے 1984 کی پیش قدمی کے بعد پاکستان کی فوج سیاچن کے علاقے میں اپنی برتری کے لیے کوشاں رہی تھی اور کارگل جنگ بھی انہیں کوششوں کا نتیجہ تھی۔

ماہرین کے مطابق کارگل جنگ کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف پرویز مشرف کے تعلقات میں مزید سرد مہری آئی۔
ماہرین کے مطابق کارگل جنگ کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف پرویز مشرف کے تعلقات میں مزید سرد مہری آئی۔

کارگل جنگ پر اپنی کتاب ’فروم کارگل ٹو کو‘ میں پاکستان کی سینئر صحافی نسیم زہرا نے لکھا ہے کہ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق کے سامنے 1984 میں سب سے پہلے یہ منصوبہ پیش ہوا تھا کہ لداخ کے علاقے کارگل پر قبضہ کرکے سیاچن کے لیے بھارت کی سپلائی لائن کاٹی جاسکتی ہے۔

بعد ازاں یہ منصوبہ بے نظیر بھٹو اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے سامنے بھی پیش ہوا۔ لیکن ایل او سی پار کرنے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کے آغاز کے خدشے کے پیشِ نظر اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

منصوبہ تھا کیا؟

کارگل کی پہاڑیوں کی برفیلی چوٹیوں پر بھارتی فوج ہر سال سازگار موسم میں قبضہ کر لیتی تھی اور سرما کی شدت کے آغاز میں انہیں چھوڑ کر میدانی علاقوں کی طرف چلی جاتی تھی۔

فروری 1999ء کے اوائل میں جب ابھی بھارتی فوج اس علاقے میں واپس نہیں آئی تھی تو پاکستانی فوج کی ناردرن لائٹ انفنٹری (این ایل آئی) اور پاکستان کے مطابق ’مجاہدین‘ نے ان پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔

اس قبضے کے کافی عرصے بعد تک بھارتی افواج اور ان کی خفیہ ایجنسیاں اس صورتِ حال سے بے خبر رہیں۔ پاکستان نے اس کارروائی کو 'آپریشن کوہ پیما' کا نام دیا تھا۔

مئی 1999 میں موسم گرما میں جب بھارت کو اس مہم جوئی کا پتا چلا تو پھر قبضہ چھڑانے کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان شدید جنگ ہوئی، جس میں بھارت نے اپنی فضائیہ کو بھی استعمال کیا۔

یہ تنازع جولائی 1999 تک جاری رہا ہے اور تین جولائی کو پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے امریکہ کا ہنگامی دورہ کیا اور صدر کلنٹن کی مصالحت پر غیر مشروط جنگ بندی تسلیم کرلی۔

بعدازاں نواز شریف نے یہ الزام عائد کیا کہ کارگل میں مہم جوئی کا آغاز کرنے سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے انہیں اور مسلح افواج کی دیگر قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ یہ آپریشن پرویز مشرف اور ان کے چند قریبی جنرلوں کی مہم جوئی کا نتیجہ تھی جس میں پاکستان کی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

البتہ پرویز مشرف اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں اس تاثر کی تردید کرتے ہیں اور ان کے مطابق یہ کامیاب آپریشن تھا اور اس کے بارے میں عسکری قیادت کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کی لڑائی مئی سے جولائی 1999 تک جاری رہی تھی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کی لڑائی مئی سے جولائی 1999 تک جاری رہی تھی۔

اگرچہ بھارت بھی کارگل تنازع میں کامیابی کا دعوے دار ہے۔ تاہم وہاں اس جنگ کے بعد باقاعدہ ایک کمیشن بنا کر پاکستان فوج کی پیش قدمی کے بارے میں لاعلمی کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے کمیشن بنایا گیا۔ البتہ پاکستان میں سرکاری سطح پر تحقیقات نہیں ہوسکیں۔

نسیم زہرا سمیت کارگل جنگ پر لکھنے والے مصنفین میں سے زیادہ تر اس مہم جوئی کو پرویز شرف کی بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ اس مہم جوئی کے نتیجے میں جہاں پاکستان اور بھارت کے تعلقات متاثر ہوئے وہیں پاکستان کے اندر اقتدار کا توازن بھی بگڑنا شروع ہوگیا تھا۔

ایک بار پھر فوجی حکومت

آرمی چیف کے لیے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف ہی نے پرویز مشرف کا انتخاب کیا تھا اور انہیں سنیارٹی لسٹ میں سرِفہرست جنرل علی قلی خان پر ترجیح دے کر فوج کا سربراہ بنایا تھا۔ لیکن کارگل جنگ کے بعد دونوں میں اختلاف کی خلیج حائل ہوگئی تھی۔

جولائی کے اختتام تک پاکستان کی فوج کے جانی نقصان کی خبریں بھی سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں۔ اس لیے فوج کے اندر بھی اس آپریشن سے متعلق سوال اٹھنے لگے تھے۔

نواز شریف نے چوں کہ یک طرفہ طور پر معاہدہ تسلیم کرکے کارگل سے فوج واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا جسے بھارت اپنی کامیابی قرار دے رہا تھا۔ اس لیے نسیم زہرا کے مطابق پرویز مشرف اور ان کے ساتھ کارگل آپریشن مرتب کرنے والے قریبی جنرلز نے فوج میں اس تاثر کو بڑھاوا دیا کہ نواز شریف کارگل کے میدان میں جیتی ہوئی جنگ سفارتی محاذ پر ہار آئے ہیں۔

پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ مرتب کرنے والے معروف قانون داں حامد خان اپنی کتاب ’کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ کارگل کی جنگ کا اصل ذمے دار کون تھا اس کا تعین کرنا اتنا آسان نہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اس تنازع کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ لکھتے ہیں کہ کارگل جنگ کے بعد یہ افواہیں گرم تھیں کہ نواز شریف آرمی چیف کو برطرف کرنے والے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو یہ افواہیں درست ثابت ہوئیں اور وزیرِ اعظم نواز شریف نے لیفٹننٹ جنرل ضیاء الدین کو ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا۔

جس وقت یہ فیصلہ کیا گیا جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دورے سے واپس وطن لوٹ رہے تھے۔ اگرچہ آرمی چیف کی تبدیلی کا اعلان سرکاری ٹی وی پر بھی نشر ہوچکا تھا لیکن کور کمانڈرز نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

بعض ماہرین کے مطابق پرویز مشرف کی کراچی پہنچنے سے قبل ہی ملک کا انتظام فوج نے سنبھال لیا تھا۔
بعض ماہرین کے مطابق پرویز مشرف کی کراچی پہنچنے سے قبل ہی ملک کا انتظام فوج نے سنبھال لیا تھا۔

پرویز مشرف کی پرواز جب کراچی ایئر پورٹ پر پہنچی تو فوج وزیر اعظم نواز شریف کو حراست میں لے کر ملک کے اقتدار پر قابض ہوچکی تھی جس کے بعد پرویز مشرف نے قوم سے خطاب میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا اور ماضی کے برخلاف چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کے بجائے اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کا انتخاب کیا۔

اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت میں لیفٹننٹ جنرل احسان الحق، عزیز خان، محمود احمد اور شاہد عزیز نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ کارگل کی مہم جوئی سے متعلق پاکستان میں سرکاری تحقیقات نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ذمےد اران کا تعین تو نہیں کیا جاسکا۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ 1999 میں جن افسران نے اقتدار پر قبضے میں بنیادی کرادا کیا جنرل مشرف کو کارگل آپریشن کے لیے ان کی حمایت حاصل تھی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 12 رکنی بینچ سے اقتدار پر قبضے کے فوجی اقدام کی توثیق اور چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کا اختیار ملنے کے بعد پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔ 20 جون 2001 کو اسی اختیار کے تحت جنرل مشرف نے ایک حکم نامے کے تحت صدر رفیق تارڑ کو برطرف کرکے منصبِ صدارات سنبھال لیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی مداخلت کے پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی مداخلت کے پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا تھا۔

وار آن ٹیرر

ستمبر 2001 میں امریکہ میں ہونے والے نائن الیون حملوں نے جہاں عالمی منظر نامہ تبدیل کر دیا وہیں پاکستان میں بھی اس سانحے کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

نائن الیون کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بُش نے افغانستان میں القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

افغانستان کے پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے وار آن ٹیرر میں پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل تھا۔ اس وقت پاکستان میں تمام اختیارات جنرل مشرف کے ہاتھ میں تھے۔ افغانستان میں جنگ کے لیے تعاون کے مطالبات پر انہیں ہی فیصلہ کرنا تھا۔ پرویز مشرف کے ناقدین کے مطابق صدر مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکہ مطالبات بلا چوں و چرا تسلیم کرلیے۔

پاکستان 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں ہونےوالی مزاحمت کے بعد اسے افغانستان میں جہادی گروپس کی معاونت کرتا رہا تھا۔ سوویت انخلا کے بعد اور نائن الیون سے قبل 1996 میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔

وار آن ٹیرر میں امریکہ کا اتحادی بننے کے فیصلے کے بعد جنرل مشرف نے پاکستان کی دہائیوں پر محیط افغان پالیسی کو تبدیل کردیا۔ افغانستان میں کارروائی کے لیے امریکہ کو فضائی اڈے فراہم کیے اس کے علاوہ القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کے اندر بھی سات مذہبی شدت پسند تنظیموں پر پابندیاں بھی عائد کیں۔

امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

جنرل مشرف کے ان فیصلوں کو امریکہ اور بھارت سمیت عالمی سطح پر سراہا گیا۔ تاہم افغان جنگ کا حصہ بننے پر انہیں پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ بالخصوص پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ کی ڈرون کارروائیوں سے متعلق جنرل مشرف کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ایل ایف او

صدارت کا عہدہ سنبھالے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 30 اپریل 2002 کو صدارتی ریفرنڈم منعقد کرایا۔ ان سے قبل فوجی آمر جنرل ضیا الحق بھی پانچ سال تک کی مدت کے لیے اپنی صدارت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے 1984 میں ریفرنڈم کا سہارا لے چکے تھے۔

اس ریفرنڈم میں 96 فی صد سے زائد ووٹوں میں صدر مشرف کو منصب پر برقرار رکھنے کی حمایت کی گئی تھی تاہم ریفرنڈم میں شدید بے ضابطگیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ریفرنڈم میں اپنی کامیابی کے بعد جنرل مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر(ایل ایف او) جاری کیا جو بعد میں کئی برسوں تک سیاسی و آئینی تنازعات کا محور رہا۔ البتہ اسی فریم ورک آرڈر کے تحت اکتوبر 2002 میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔

انتخابات اور مسلم لیگ (ق) لیگ کی تشکیل

جنرل پرویز مشرف نے 1999 اقتدار سنبھالنے کے بعد 17 اکتوبر 1999 کو قوم سے خطاب میں جو سات نکاتی ایجنڈا دیا تھا اس میں بلا امتیاز احتساب بھی شامل تھا۔ احتساب کے لیے جنرل مشرف نے نومبر 1999 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قومی احتساب بیورو (نیب) بھی تشکیل دیا تھا۔

پاکستان میں سیاست دانوں کے احتساب کے نام پر سیاسی مداخلت کے لیے بطور ادارہ نیب کے استعمال کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا الزام خود جنرل پرویز مشرف پر لگتا ہے۔

سن 2002 کے انتخابات سے قبل سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے اپنی راہیں جدا کرنے والے سیاسی رہنماؤں نے پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم گروپ بنایا تھا۔

اس جماعت کی تشکیل میں نواز شریف کے دیرینہ ساتھیوں سابق گورنر پنجاب میاں اظہر، نواز شریف کے دور میں وزیرِ داخلہ رہنے والے چوہدری شجاعت اور ان کے کزن چوہدری پرویز الہیٰ نے مرکزی کردار ادا کیا۔

مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی اور سابق صدر پرویز مشرف (فائل فوٹو)
مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی اور سابق صدر پرویز مشرف (فائل فوٹو)

ان میں سے میاں اظہر عام انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکے جب کہ چوہدری پرویز الہیٰ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بنے اور بعد ازاں چوہدری شجاعت ایک ماہ سے زائد عرصے کے لیے وزیرِ اعظم بنے۔

ناقدین کے مطابق اس جماعت میں سیاست دانوں کو شامل کرنے کے لیے نیب اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو استعمال کیا گیا۔ 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ بعدازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان نے ایک فارورڈ بلاک بنا کر حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا۔

اس فارورڈ بلاک کی تشکیل میں بھی ریاستی اداروں کے استعمال کے الزامات عائد کیے جائے جاتے ہیں۔ اسمبلی میں منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے مسلم لیگ (ق) کے وزارتِ عظمی کے امیدوار ظفر اللہ جمالی ایک ووٹ کی اکثریت حاصل کرپائے۔ ظفر اللہ جمالی جون 2004 میں مستعفی ہوگئے جس کے بعد جنرل مشرف نے وزارتِ عظمی کے لیے سابق بینکار شوکت عزیز کا انتخاب کیا۔

وردی پر معاہدہ

سن 2002 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اسمبلی میں ایل ایف او کی مخالفت اور پرویز مشرف سے فوجی سربراہ کا عہدہ چھوڑنے کے مطالبے نے زور پکڑنا شروع کیا۔

اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور اور حکومت کے درمیان دسمبر 2003 میں معاہدہ طے پایا جس میں صدر سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار واپس لینے اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرر کے لیے وزیرِ اعظم کی مشاورت سمیت دیگر آئینی تبدیلیوں کی یقین دہانی لی گئی۔

اس کے ساتھ ہی معاہدے میں مسلم لیگ (ق) نے یقین دہانی کرائی کے صدر جنرل مشرف 31 دسمبر 2004 تک آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ لیکن جنرل مشرف نے یہ وعدہ وفا نہیں کیا اور 2007 تک صدارت اور آرمی چیف دونوں عہدے اپنے پاس رکھے۔


نواب اکبر بگٹی کا قتل

دو جنوری 2005 کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ(پی پی ایل) کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر شازیہ خالد کا مبینہ ریپ ہوا۔ بگٹی قبیلے کے سردار اور قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی نے اپنے علاقے میں اس اقدام کو بلوچ قوم کی عزت و ناموس کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انتقام کا اعلان کردیا۔

اس کیس میں مبینہ طور پر پی پی ایل حکام کے علاوہ پاکستانی فوج کے ایک کیپٹن کے ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا جس نے صورتِ حال کو مزید کشیدہ کردیا تھا۔

یہ واقعہ سامنے آںے کے بعد بگٹی قبیلے کے افراد نے گیس فیلڈ پر حملہ کردیا تھا۔ اس کے جواب میں صدر مشرف نے ساڑھے چارہزار فوجی، مزید ٹینک اور ہیلی کاپٹر ڈیرہ بگٹی روانہ کردیے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا۔ تاہم 14 دسمبر 2005 کوہلو کے دورے کے موقعے پر جب پرویز مشرف کے قافلے پر حملہ ہوا تو کشیدگی اپنی عروج پر پہنچ گئی۔

سن 2006 کے اوائل میں پاکستان کی فوج نے ڈیرہ بگٹی پر بمباری کی۔ اس کارروائی کے بعد بعد نواب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی کی پہاڑیوں میں روپوش ہوگئے۔ وہیں 26 اگست 2006 کو ہونے والے ایک فوجی آپریشن میں پُراسرار طور پر ان کی موت واقع ہوئی۔

نواب اکبر بگٹی (فائل فوٹو)
نواب اکبر بگٹی (فائل فوٹو)

پاکستانی فوج کے مطابق نواب اکبر بگٹی فوجی آپریشن کےدوران غار میں ہونے والے ’پر اسرار‘ دھماکے کی وجہ سے ہلاک ہوئے جس میں تین افسران اور چار سپاہی بھی ہلاک ہوئے۔ جب کہ نواب اکبر بگٹی کے 37 ساتھی بھی مارے گئے۔

ڈیرہ بگٹی میں فوج کے آپریشن کے دوران حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے ایک مشترکہ وفد کے ذریعے مصالحت کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن فوجی کارروائی جاری رہی۔

ایک موقعے پر صدر مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں بگٹی جنگجوؤں کو وارننگ دی کے اگر انہوں نے مزاحمت ترک نہ کی تو ’انہیں پتا بھی نہیں چلے گا انہیں کس چیز سے ہٹ کیا گیا ہے‘۔

پرویز مشرف کے اس بیان نے ماحول کو مزید کشیدہ کردیا تھا۔ جس پر بعدازاں مصالحتی کوششوں میں شریک حکومتی ارکان نے بھی تنقید کی اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کی مذمت کرنے والوں میں صدر مشرف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی شامل تھے۔

ماہرین کے مطابق نواب اکبر بگٹی کی آپریشن میں ہلاکت نے بلوچستان میں قوم پرست مزاحمت کے پانچویں فیز کو جنم دیا۔ جب کہ صدر مشرف نواب اکبر بگٹی کی ریاست مخالف کارروائی کی بنیاد پر اپنے اس اقدام کا دفاع کرتے رہے۔

سن 2015 میں جنرل مشرف پر کوئٹہ کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں اکبر بگٹی قتل کا مقدمہ بھی قائم ہوا جس میں انہیں جنوری 2016 میں بری قرار دے دیا۔ اکبر بگٹی کے بیٹے اور مقدمے میں مدعی جمیل بگٹی نے عدالتی فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔

ججز کی برطرفی

جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2007 سب سے ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا۔ اس برس انہیں کئی چیلنجز کا سامنا تھا جن میں سب سے اہم اپنے عہدے کو برقرار رکھنا تھا۔

سن 2002 میں ریفرنڈم سےانتخاب اور بعدازاں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی صدارت کو قانونی جواز دینے کا جو بندوبست انہوں نے کیا تھا اس کی مدت پوری ہونے والی تھی۔

وہ 2004 میں پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کی وعدے سے انحراف کرچکے تھے اور اب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ان پر آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔

دوسری جانب 2005 میں چیف جسٹس بننے والے جسٹس افتخار چوہدری اسٹیل ملز کی نج کاری، گوادر میں بااثر افراد کو خلافِ ضابطہ اراضی کی الاٹمنٹ، جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد اور مفادِ عامہ کے دیگر کیسز میں سو موٹو نوٹسز کی وجہ سے شہرت حاصل کررہے تھے۔

حامد خان کے مطابق ان فیصلوں کی وجہ سے پرویز مشرف کو یہ خدشہ تھا کہ افتخار چوہدری چیف جسٹس رہے تو اداروں کی نج کاری، آئینی طور پر اہمیت کے حامل کیسز اور بالخصوص صدارتی انتخاب میں ان کے لیے مسائل کا باعث بنیں گے۔

اپنی کتاب ’کونسٹی ٹیوشنل ہسٹری‘ میں حامد خان لکھتے ہیں کہ افتخار چوہدری کو غیر معمولی جج کے کی شہرت نہیں رکھتے تھے البتہ زیر التوا کیسز نمٹانے کے لیے ان کی کوششوں کو سراہا ضرور جاتا تھا۔

وکلا برادری میں عدالت کے اندر ان کے سخت رویے کی شکایت بھی پائی جاتی تھی جب کہ فروری 2007 میں ٹی وی میزبان اور وکیل نعیم بخاری کا ایک خط بھی منظر عام پر آچکا تھا جس میں جسٹس افتخار چوہدری پر اپنے بیٹے ارسلان افتخار کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

یہ خط منظرِ عام پر آنے کے اگلے ہی ماہ نو مارچ 2007 کو جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آرمی ہاؤس طلب کرکے انہیں بتایا کہ عدالتی امور اور منصبی ذمے داریوں سے ہٹ کر ان کے خلاف بے ضابطگیوں کے کئی الزمات گردش میں ہیں۔

ان میں مرکزی الزامات وہی تھے جو نعیم بخاری کے خط میں سامنے آچکے تھے۔ جنرل مشرف نے بتایا کہ اس بنا پر انہیں ’غیر فعال‘ کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم چوڈیشنل کونسل کو ریفرنس بھجوایا جارہا ہے۔

بعدازاں ایک ٹی وی انٹرویو میں جنرل مشرف نے بتایا کہ چیف جسٹس کو اس موقعے پر مستعفی ہونے کا آپشن بھی دیا گیا تھا لیکن انہوں ںے ریفرنس کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد انہیں عہدے پر کام کرنے سے روک دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کو قائم مقام چیف جسٹس بنا دیا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج رانا بھگوان داس بھارت کے دورے پر تھے۔

حامد خان کی کتاب ’کونسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ کے مطابق اس دوران دو گھنٹے تک چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں روکا گیا جہاں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر افسران ان سے مستعفی ہونے پر اصرار کرتے رہے۔

ٹی وی اسکرینز پر وردی میں ملبوس صدر جنرل مشرف سے جسٹس افتخار چوہدری کی ملاقات کے مناظر اور اگلے روز اخبارات میں اس تصویر کے شائع ہونے کے بعد ملک بھر میں وکلا کے احتجاج شروع ہوگئے۔

اگلے ہی روز 10 مارچ 2007 کو سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے خلاف موصول ہونے والے ریفرنس کا نوٹس بھجوا دیا تاہم انہیں ریفرنس کی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں۔

جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے گھر تک محدود کردیا گیا تھا تاہم جب وہ 13 مارچ کو اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت میں شریک ہونے کے لیے گھر سے نکلے تو سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کاروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔

جسٹس افتخار نے پیدل ہی سپریم کورٹ کی عمارت کی جانب جانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں زدوکوب کیا۔ اس موقعے کی تصاویر سامنے آنے کے بعد وکلا اور اپوزیشن جماعتوں نے ملک گیر احتجاج شروع کردیا۔ عدلیہ سے شروع ہونے والی کشمکش پرویز مشرف کی اقتدار سے محرومی میں ڈھلوان کا سفر ثابت ہوئی۔

سانحہ بارہ مئی

ایک جانب معزول چیف جسٹس اپنی بحالی کی قانونی جنگ عدالت میں لڑ رہے تھے دو دوسری جانب وکلا ، صحافیوں اور دیگر سماجی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں جنرل مشرف کے اس اقدام کے خلاف سڑکوں پر تھے۔ معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری بار کونسلز کی دعوت پر مختلف شہروں میں خطابات بھی کررہے تھے جہاں وکلا برادری کے ساتھ عوامی سطح پر بھی پذیرائی مل رہی تھی۔

ادھر جنرل مشرف دوسری بار صدر منتخب ہونے کے لیے تیاری شروع کرچکے تھے۔ 12 مئی 2007 کو صدر مشرف نے اسلام آباد میں ایک جلسے کا انعقاد کیا جب کہ اسی روز کراچی میں معزول چیف جسٹس کو بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے لیے پہنچنا تھا۔

اس وقت سندھ میں جنرل مشرف کی حامی جماعت ق لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کی اتحادی حکومت تھی۔ انتظامیہ نے معزول چیف جسٹس کو ایئر پورٹ سے باہر نہیں آنے دیا جب کہ شہر کی بڑی شاہراوں اور متعدد داخلی کو خارجی راستوں کو پوری طرح بند کردیا گیا۔

کراچی میں اپوزیش کی جماعتوں پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ ن اور دیگر نے معزول چیف جسٹس کے استقبال کے لیے ریلیاں نکالنا تھیں۔ جب کہ شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے اسی روز ایم اے جناح روڈ جلسے کا اعلان کرکھا تھا۔

اس روز کراچی میں مشرف کی حامی اور مخالف سیاسی جماعتوں میں تصادم کے واقعات پیش آئے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔اسی روز جنرل مشرف نے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب میں کراچی میں پیش آنے والی صورتِ حال کو ’عوامی طاقت کا مظاہرہ‘ قرار دیا۔

جسٹس افتخار چوہدری 12 مئی کو بار ایسوسی ایشن سے خطاب نہیں کرسکے۔ جب کہ اس روز کے واقعات نے کراچی میں لسانی و سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کیا۔


ایک اور ایمرجنسی

کم و بیش چار ماہ تک جاری رہنے والی احتجاجی تحریک اور قانونی جنگ کے بعد 20 جولائی 2007 کو عدالت نے افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کو ناقابل سماعت قرار دے کر انہیں منصب پر بحال کردیا لیکن یہ بحالی عارضی ثابت ہوئی۔

صدر مشرف پہلےہی صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ اگست 2007 میں عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے آرمی چیف اور صدارت کا عہدہ رکھنے پر انتخاب کے لیے مشرف کی اہلیت کو عدالت میں چیلنج کردیا۔

ان درخواستوں میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اس وقت کی قومی و صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی ہیں اس لیے آئندہ مدت کے لیے صدر کے انتخاب کے لیے وہ موزوں الیکٹورل کالج نہیں ہیں۔


صدارتی انتخاب کے لیے چھ اکتوبر 2007 کا اعلان ہوچکا تھا۔ 28 ستمبر کو سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے نے جنرل مشرف کی اہلیت سےمتعلق درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردیا۔ بینچ میں شامل تین ججز نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔

اس فیصلے سے قبل 27 ستمبر کو صدارتی انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہوئے۔ وکلا نے 2000 میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کو اپنا امیدوار نامزد کردیا جب کہ پیپلز پارٹی نے مخدوم امین فہیم کو امیدوار بنایا۔

صدر مشرف کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہور نے پر جسٹس (ر) وجیہہ الدین اور مخدوم امین فہیم نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔ انتخاب سے تین دن قبل ان درخواستوں کی سماعت کے لیے نو رکنی بینچ بنایا گیا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری اس میں بینچ میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ بعدازاں بینچ کے ایک رکن کی سماعت سے معذرت کے بعد دو جسٹس خلیل الرحمان رمدے سمیت دو ججز کو بینچ میں شامل کیا گیا۔

پانچ اکتوبر کو بینچ نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا کہ اہلیت کی درخواستوں پر فیصلے تک الیکشن کمیشن انتخاب میں کامیاب امیدوار کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی درخواستوں پر سماعت کے لیے 17 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی۔ چھ اکتوبر کے صدارتی انتخاب میں جنرل مشرف کامیاب ہوگئے لیکن عدالتی حکم کے مطابق ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک لیا گیا۔

سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ نے 17 اکتوبر کر جنرل مشرف کی اہلیت سے متعلق روزانہ کی بنیادوں پر دو نومبر تک سماعت کی اور اس کے بعد سماعت پانچ نومبر تک ملتوی کی۔ اس دوران یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ جنرل مشرف کو خدشہ تھا کہ عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے دی گی اور اسی وجہ سے انہوں نے تین نومبر کو بطور آرمی چیف ملک میں غیر آئینی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔

اس کے تحت بنیادی آئینی حقوق معطل کردیے گئے جب کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو صدر یا وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ کرنے کے اختیار سے بھی محروم کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے 2007 کا عبوری آئینی حکم نامہ(پی سی او) بھی جاری کردیا جس کے بعد جسٹس افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے متعدد ججز کو نظر بند کردیا گیا۔

بعدازاں 2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں 2008 میں عہدے سے مستعفی ہونے والے سابق صدر پرویز مشرف کے اسی اقدام کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ شروع کیا گیا۔

اس کیس کی متعدد سماعتوں میں جنرل مشرف پیش نہیں ہوئے اور 2016 میں جنرل مشرف کو ایک بار ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کو ملزم کی غیرحاضری میں سماعت شروع کرنے کا اختیار دے دیا۔ خصوصی عدالت 17 دسمبر 2019 کو جنرل مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا۔ بعدازاں پرویز مشرف نے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس نے اس سزا کو معطل کردیا۔

لال مسجد واقعہ

جنوری 2007 میں پاکستان کے دارالحکومت میں سرکاری اراضی پر بغیر اجازت مساجد اور مدارس کی تعمیرات کے خلاف لال مسجد سے متعلق لڑکیوں کے مدرسے کی طالبات نے احتجاج شروع کیا۔ 27 مارچ کو ان طالبات نے قحبہ خانہ چلانے کے الزام میں تین خواتین کو یرغمال بنالیا اور بعدازاں دو پولیس والو کو بھی قید کیا۔

یرغمال کیے گئے افراد کو بعدازاں رہا کردیا گیا لیکن لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے چھ اپریل 2007 کو مسجد میں شرعی عدالت لگانا شروع کردی اور مدرسے کے خلاف کارروائی کی صورت میں خود کُش حملوں کی دھمکی بھی دی۔

نو اپریل کو لال مسجد کی شرعی عدالت نے وزیر سیاحت نیلو فر بختیار پر خیراتی مقصد کے لیے فرانس میں مرد پیراشوٹنگ انسٹرکر کے ساتھ فضا سے زمین پر چھلانگ کی تصاویر کو فحاشی قرار دیا اور ان کے خلاف فتوی جاری کردیا۔


مئی2007 تک لال مسجد سے متصل مدارس کے طلبہ و طالبات اور خطیب مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھائی عبدالرشید کے ساتھ حکومت کے تنازع کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ 23 جون کو لال مسجد کے طلبہ کے درجنوں طلبہ نے چھ چینی خواتین اور ایک مرد کو قحبہ خانہ چلانے کے الزام میں گرفتار کرلیا جنھیں سرکاری سطح پر چین کے احتجاج کے بعد رہا کردیا گیا۔

لیکن لال مسجد کے طلبہ کا یہ اقدام اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوا۔ اس کے بعد تین جولائی کو لال مسجد کے طلبہ اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اگلے ہی روز سیکیورٹی فورس نے مسجد کا گھیراؤ کرلیا۔ مسجد کے خطیب عبدالعزیز برقع میں فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار ہوگئے اور مسجد میں محصور طلبہ و طالبات کی قیادت ان کے بھائی غازی عبدالرشید نے سنبھال لی۔

اس دوران صدر جنرل مشرف واضح کرچکے تھے کہ ہتھیار نہ پھینکنے والے مسلح افراد مارے جائیں گے۔ دس جولائی 2007 کو مذاکرات کی ناکام کوشش کے بعد پاکستان کی سیکیورٹی فورس نے لعل مسجد میں محصور افراد کے خلاف کارروائی کی جس میں 40 کے قریب مسلح افراد اور تین سیکیورٹی اہل کار مارے گئے۔

صدر جنرل پرویز مشرف پر اس آپریشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کیے گئے اور ان کے اس اقدام کو پاکستان میں شدت پسندانہ کارروائی میں اضافے کا سبب بھی قرار دیا گیا۔ پرویز مشرف حکومتی رٹ کی بحالی کو بنیاد بنا کر اس اقدام کا دفاع کرتے رہے۔

XS
SM
MD
LG