کاروبار کھولنے میں جلدی کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، ڈاکٹر فاؤچی
وائٹ ہاؤس کی کرونا وائرس ٹاسک فورس کے رکن اور وبائی امراض کے قومی مرکز کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے خبردار کیا ہے کہ کاروبار کھولنے میں جلدی کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے یہ بات منگل کو امریکی ایوان بالا کی کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں سینیٹرز کے سوالات کے جواب میں کہی۔ ڈاکٹر فاؤچی، ٹاسک فورس کے دوسرے ارکان اور کئی سینیٹرز نے ویڈیو لنک پر اس غیر معمولی اجلاس کی کارروائی میں حصہ لیا۔
13 مارچ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ڈاکٹر فاؤچی کانگریس کے کسی اجلاس میں شریک ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے سربراہ اسٹیفن ہان، سینٹر فور ڈیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ڈائریکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ اور محکمہ صحت کے اسسٹنٹ سیکریٹری بریٹ گروئیر نے بھی سوالات کے جواب دیے۔
سینیٹر لیمار نے پہلا سوال کیا کہ کیا ہمارے طالب علم موسم خزاں میں کالج جا سکیں گے؟ ڈاکٹر فاؤچی نے کہا کہ اس وقت تک ویکسین کا بننا بہت مشکل ہے۔
امریکہ میں پابندیاں نرم ہونے پر زندگی معمول کی طرف رواں دواں
امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں کاروبار زندگی معمول کی طرف لوٹ رہا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں کاروبار کھل رہے ہیں، ہر چند کہ کرونا وائرس کا زور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ رہا ہے۔ اور اسی لیے امریکی محتاط اندز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
جب امریکہ میں کرونا وائر س کا زور شروع ہوا تو لوگ اپنے گھروں میں بند ہوگئے، دفتر، دکانیں کاروبار اور کمپنیاں بند ہوگئیں۔ ان حالات میں، سڑکوں پر ٹریفک بھی کم ہو گیا۔ لیکن، اب پچھلے ہفتے سے، بہت سی ریاستوں میں کاروبار اور دفتر کھل رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی، اے پی نے سٹریٹ لائٹ ڈیٹا کارپوریشن کے اعداد و شمار سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آٹھ مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے سات دنوں میں ٹریفک میں ساٹھ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ موازنہ اس وقت سے کیا گیا ہے جب امریکہ میں کرونا بحران شروع ہوا۔ مگر اب بھی ٹریفک اتنی نہیں بڑھی جتنی کہ معمول کے دنوں میں ہوا کرتی تھی۔ جنوری 2020ء کے مقابلے میں یہ انچاس فی صد کم ہے۔ یہ سوفٹ ویر کمپنی مختلف ذرائع سے امریکہ کی سڑکوں پر ٹریفک کے دباو کا مطالعہ کرتی ہے۔
امریکی ریاست مینی سوٹا میں مارچ میں لوگوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ بارہ اپریل کو ٹرانسپورٹ کے محکمے نے ایک سروے کیا، جس کے مطابق، جڑواں شہروں کی ٹریفک میں اکہتر فی صد کمی آئی؛ جب کہ پورے صوبے میں چھیاسٹھ فی صد کمی واقع ہوئی۔ اس کے بعد ٹریفک میں تھوڑا بہت فرق پڑا۔
- By اسد نذیر
کیا کرونا وائرس کے خاتمے کا تعلق گرم موسم سے ہوسکتا ہے؟
کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے۔ یہ مقولہ آج کل کرونا وائرس کے خاتمے پر پوری طرح صادق آ رہا ہے۔
فی الحال سائنس دانوں کے اعلانات، تجزیے اور پیش گوئیاں عام آدمی کو مطمئن نہیں کر پا رہی ہیں۔ یہ وائرس کب ہماری جان چھوڑے گا؟ کیسے جائے گا؟ اس کا علاج کس طرح ممکن ہے اور اس کے انسداد کے لیے ویکسین کب آئے گی؟ ان سارے سوالات کے جواب فی الحال تشنہ ہیں؟ اس گو مگو کے حالات میں ایک آسرا یہ بھی ہے کہ گرمی اس وائرس کا زور توڑ دے گی۔
مگر دنیا کے بہت سے حصوں میں موسم گرما شروع ہو گیا، مگر یہ وائرس اپنی پوری قوت سے زمین پر پیر جمائے موجود ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ گرمیوں میں کئی طرح کے انفکشن ختم ہو جاتے ہیں اور شائد کرونا وائرس پر بھی کوئی اثر پڑے۔ مگر یہ بھی ایک متنازعہ بحث ہے؛ کچھ متفق ہیں اور کچھ اس سوچ کو نہیں مانتے۔
کرونا وائرس: برطانیہ میں ہلاکتیں 40 ہزار سے زیادہ
برطانیہ میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے جو اس سے پہلے کے اندازوں سے کم از کم آٹھ ہزار زیادہ ہے۔
روس میں ہلاکتوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ لیکن، وہ مریضوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ برازیل میں بھی صورتحال قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے جہاں روزانہ سیکڑوں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی اور وورڈومیٹرز کے مطابق، منگل تک برطانیہ میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد ساڑھے 32 ہزار تھی۔ لیکن، برطانیہ کے محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں کم از کم 40 ہزار افراد عالمگیر وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔
یہ 40 ہزار افراد وہ ہیں جن کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر موت کی وجہ کرونا وائرس درج ہے۔ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ مزید ہزاروں افراد کی موت میں کرونا وائرس نے ان کی بیماریوں میں مزید پیچیدگی پیدا کی ہوگی۔