رسائی کے لنکس

شریف خاندان کی شوگر ملوں کی منتقلی کا نوٹیفیکشن منسوخ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وکلائے صفائی کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ملز کو منتقل کرنے کی پالیسی سے نئی شوگر ملز قائم کرنے پر پابندی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور ملز کی منتقلی نئی مل لگانے کے مترادف نہیں ہے۔

لاہور کی عدالت عالیہ نے وزیراعظم نوازشریف ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خاندان اور قریبی رشتے داروں کی پانچ شوگر ملز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین اور بعض دیگر شوگر ملز مالکان نے محکمہ صنعت کی طرف سے ملوں کی منتقلی کے نوٹیفیکشن کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی تھیں جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ شریف خاندان ملز کی منتقلی کی آڑ میں مبینہ طور پر نئی ملز لگا رہا ہے جب کہ 2006ء سے نئی شوگر مل لگانے پر پابندی عائد ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کی جج عائشہ اے ملک نے پیر کو ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اچھی طرز حکمرانی کے لیے پالیسیاں بنانے کا اختیار ہے جس میں عدلیہ مداخلت نہیں کرتی لیکن عدالتیں پالیسیوں کا اس بنا پر جائزہ لیتی ہے کہ آیا یہ قانون کے دائرے میں ہیں اور یہ بنیادی حقوق و آئین کے منافی تو نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مفادات کا تصادم حقیقی طور پر ہو یا اس کا تاثر بھی سامنے آئے تو عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے اور اس سے فیصلہ سازی کے عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جن شوگر ملز کی منتقلی کا نوٹیفیکشن کالعدم قرار دیا گیا ان میں ساہیوال میں واقع چودھری شوگر ملز اور اتفاق شوگر ملز، ننکانہ صاحب میں حسیب وقاص شوگر ملز، دیپالپور میں عبداللہ شوگر ملز اور سرگودھا کی عبداللہ یوسف شوگر ملز شامل ہیں۔

وکلائے صفائی کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ملز کو منتقل کرنے کی پالیسی سے نئی شوگر ملز قائم کرنے پر پابندی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور ملز کی منتقلی نئی مل لگانے کے مترادف نہیں ہے۔

پنجاب حکومت کے وکیل کا موقف تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور فصلوں کے رجحان کی وجہ سے ان ملز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور چونکہ اس منتقلی سے شوگر ملز کی مجموعی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا لہذا یہ قومی مفاد یا پابندی کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG