رسائی کے لنکس

امریکی کمپنی نے کووڈ نائنٹین کے علاج کی دوا ترقی پذیرممالک میں کم قیمت پر بنانے کی اجازت دے دی


فائل فوٹو میں مرک اینڈ کمپنی کی طرف سے فراہم کردہ اس تصویر میں ان کی نئی اینٹی وائرل ادویات دیکھی جاسکتی ہیں۔
فائل فوٹو میں مرک اینڈ کمپنی کی طرف سے فراہم کردہ اس تصویر میں ان کی نئی اینٹی وائرل ادویات دیکھی جاسکتی ہیں۔

ایسے وقت میں جب اومیکرون وائرس دنیا کے کئی حصوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے امریکہ کی ایک بڑی دوا ساز کمپنی مرک نے ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی 30 کمپنیوں کو کووڈ نائنٹین کے علاج کی اپنی تیار کردہ دوا کی کم لاگت قسم بنانے کی اجازت دی ہے جو ترقی پزیر ممالک میں کم قیمت پر دستیا ب ہو گی۔

مرک کمپنی نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی حمایت سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت بنائی جانے والی گولیاں 105 کم ترقی یافتہ ممالک میں عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے عام دستیاب ہو سکیں گی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق عالمی وبا کےدوران مرک کمپنی کی اپنی دوا کی کم لاگت پر تیار ہونے والی قسم بنانے کی اجازت کی مثال کم ہی ملتی ہے، کیونکہ عمومی طور پر دواساز کمپنیاں اپنی بنائی گئی دوا کو بہت عرصے تک خود ہی بناتی ہیں۔

تاہم ، رائٹرز کے مطابق، مولنوپراویر نامی دوا ابھی تک زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی اور اس کے اثرات کے بارے میں بھی کچھ تحفظات ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے کم ترقی یافتہ ممالک میں اس دوا کی دستیابی کی منظوری میں بھی کافی وقت درکار ہو سکتا ہے۔

میڈیسن پیٹنٹ پول کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت مرک کمپنی عالمی وبا کے دوران کم ترقی یافتہ ممالک میں دوا کی فروخت سے رائلٹیز نہیں لے گی۔

ایم پی پی سے وابستہ ایک اہلکار نے رائٹرز کو ابتدائی تخمینوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پانچ روزہ کورس میں استعمال ہونے والی گولیوں کی کم ترقی یافتہ ممالک میں قیمت تقریباً 20 ڈالر ہوگی۔

دریں اثنا امریکہ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد اگر ویکسنیشن کی دو خورایکیں لیں تو وہ کووڈ نائنٹین سے سب سے زیادہ محفوظ سمجھے جائیں گے۔

پاکستان: کرونا کے خلاف چین کی دوا کتنی موثر ہے؟

امریکہ کے امراض سے بچاو اور انسداد کے محکمے (سی ڈی سی) کی جاری کردہ ایک تحقیق نیویارک اور کیلی فورنیا کی دو ریاستوں میں پچھلے سال موسم گرما اور موسم خزاں کے دوران ایسے لوگوں کے ڈیٹا پر مبنی ہے جنہیں پہلے کووڈنائنٹین لاحق ہوا تھا اور اس کے بعد انہوں نے ویکسین کے ٹیکے بھی لگوائے۔

اس تحقیق میں ایسے افراد کی قوت مدافعت کا موازنہ ایسے افراد سے کیا گیا جو کووڈنائنٹین سے تو متاثر ہوئے تھے لیکن انہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔ نتائج نے ظاہر کیا کہ متاثرہ افراد ویکسین لگوانے سےکووڈ نائنٹین سے سب سے زیادہ محفوظ ثابت ہوئے۔ لیکن ایسے متاثرہ افراد جنہوں نے ویکسین کی خوراکیں نہیں لی تھیں وہ بھی بہت حد تک کووڈ نائنٹین سے محفوظ ہوگئے تھے۔
ادھربحر اوقیانوس کے دوسری طرف یورپ میں کئی ممالک کووڈ نائینٹین کو ایمرجنسی کی بجائے ایک مرض کے طور پر نمٹنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق برطانیہ، اسپین اور پرتگال کووڈ نائنٹین کو انہی خطوط پر نمٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
اس منصبہ بندی کا مقصد یورپی ممالک کو بحرانی کیفیت سے نکالنا اور مرض پر قابو پانا ہے۔

ان ممالک کے نزدیک کووڈ نائنٹین کو زکام اور خسرے جیسےامراض کی طرح لینا چاہیے جس کا مطلب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ لوگ اس مرض سے متاثر ہوں گے اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ انہیں اس سے کیسے بچایاجائے اور پہلے ہی سے پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو کیسے غیرمعمولی تحفظ فراہم کیا جائے۔

یاد رہے کہ عالمی وبا کے آغاز میں دنیا بھر میں زیادہ تر ممالک نے وائرس سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر لاک ڈاون کی پالیسی اختیار کی تھی جس سے دنیا کو غیر متوقع طور پر بڑے اقتصادی نقصان سے دو چار ہونا پڑا۔ لیکن اب کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ نائنٹین سے بچاو کی ویکسین اور ادویات کے بننے کے بعد دنیا کو اس مرض کو دوسری بیماریوں کی طرح لینا چاہیے تاکہ عالمی وبا کے ایمرجینسی مرحلے سے نکل کر اقتصادی بحالی کی جانب پیش رفت ہو سکے۔

تاہم بعض ماہرین نے تجویز دی ہے کہ اس طرح کی صورت حال کی جانب اقدامات اومیکرون وائرس کی موجودہ لہر کے خاتمے کے بعد ہی اٹھائے جائیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی خبر دار کیا ہے کہ پالیسی میں ایسی تبدیلی لانے میں جلدبازی ناموافق ہوسکتی ہے کیونکہ عالمی وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔

(خبر کا مواد اے پی اور رائیٹرز سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG