رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز میں افسران کے تقرر و تبادلے روک دیے


سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن برانچ میں تاحکمِ ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

اعلیٰ عدالت نے قومی احتساب بیورو ( نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو بھی تا حکمِ ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا ہے۔

پاکستان کے تفتیشی اداروں میں مبینہ حکومتی مداخلت کے معاملے پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کو از خود نوٹس کی سماعت کی۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں از خود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی تو اس موقع پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں موجود تھے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب میں چیک کیا جائے اور مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کے لیے اقدامات سے آگاہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خاموش تماشائی بن کرمئی سے یہ چیزیں دیکھ اورنوٹ کررہے مقدمات کے ملزم کوابھی مجرم قرارنہیں دیا گیا۔سزائیں نہیں سنائیں،انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے۔ سوموٹو کارروائی کا مقصد نظام انصاف کو بچانا اور قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔

عدالت کے حکم پر اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ ریکارڈ سیل کرنے سے ٹرائل رک جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ زیرِ التوا مقدمات کا ریکارڈ سیل نہیں کر رہے بلکہ پراسیکیوشن کے ریکارڈ کو سیل کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بتایا جائے شہباز شریف، حمزہ شہباز کے کیسز میں افسران کے تبادلے کس بنیاد پر کیے گئے؟ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پالیسی میں رد و بدل سے متعلق بھی جاننا چاہتے ہیں۔

دورانِ سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ لاہور کی عدالت میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا۔ انہیں بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ ان معاملات پر تشویش ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اور استغاثہ کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے اور ای سی ایل رولز میں تبدیلی سے تین ہزار افراد کا فائدہ ہوا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کوئی رائے نہیں دے رہے صرف حقائق جاننا چاہتے ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر ہوئے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات سمیت پراسیکیوشن برانچز میں کس کس کو تبدیل کیا گیا اور ان کی جگہ کون آیا؟ اس حوالے سے گزشتہ چھ ہفتوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔

عدالت نے چیئرمین نیب، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، نیب اور ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز سے تحریری جواب بھی طلب کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت اور ساکھ کو برقرار رکھا جائے، عدالت کی کارروائی کا مقصد صرف اس حد تک جانا ہے۔

تفتیشی اداروں میں مبینہ حکومتی مداخلت کے معاملے پر از خود نوٹس کی مزید سماعت آئندہ جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کا از خود نوٹس خدشات پر مبنی ہے'

سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کہتے ہیں اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف تمام مقدمات کے ریفرنس عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں اور سالہا سال سے شہادتوں کا عمل جاری ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیف جسٹس کی عدالت سے ریکارڈ غائب ہو گا اور کیا ریفرنس کی فائلیں عدالتوں سے گم ہو جائیں گی؟

ان کے بقول، عدالت کا از خود نوٹس محض خدشات پر مبنی ہے اور اسے منتخب نمائندوں کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ کے اس ازخود نوٹس کا پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے خیر مقدم کیا ہے۔

'چیف جسٹس نے حقیقی قدم اٹھایا ہے'

سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ماضی میں بھی اپنے خلاف مقدمات کی تحقیقات کے لیے اپنی مرضی کی تفتیشی ٹیمیں لگاتے اور اہم افسران کے تبادلے کرتے رہے ہیں۔

فواد چوہدری کا مقامی ٹی وی چینل 'اے آر وائی' سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ چیف جسٹس نے حقیقی قدم اٹھایا ہے جس سے پاکستان میں بڑے لوگوں کے خلاف مقدمات سے وہ نہیں بچ سکیں گے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اگر تاثر کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا گیا تو یہ سپریم کورٹ کے تاثر کے لیے تباہ کن ہوگا۔

سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید اعلیٰ عدالت کے از خود نوٹس کو سنہری فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول اب اداروں اور عدلیہ پر اہم ذمہ داری ہے تاکہ بیورو کریسی دیانت دارانہ اور ایمان دارانہ فیصلے کر سکے۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ایک ٹوئٹ میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا، "غیر ضروری جوڈیشل ایکٹوازم جمہوریت کے لیے ایک واضح خطرہ ہے۔"

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک ساتھی جج جسٹس مظاہر علی نقوی کے خط پر بدھ کو اس معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق شکایت کنندہ فاضل جج نے تفتیشی افسران کو ان کے عہدے سے ہٹانے اور ان کا تبادلہ کرنے کی نشاندہی کی تھی۔

یاد رہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز افراد مبینہ طور پر فوجداری معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں جس سے پراسیکیوشن کے معاملات متاثر ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ عدالتوں میں زیرِ سماعت کیسز میں ثبوتوں میں رد و بدل اور شہادتیں غائب ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

کورٹ رپورٹر عبدالقیوم صدیقی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ''پاناما تھری شروع ہوا چاہتا ہے، براہِ کرم سواریاں سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔''

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما اسکینڈل پر بھی از خود نوٹس لیا تھا اور جسٹس اعجاز الاحسن پاناما لیکس کے حوالے سے بنائے گئے ریفرنس سے متعلق احتساب عدالتوں میں زیرِ سماعت کیسز کے لیے نگراں جج تھے۔

XS
SM
MD
LG