رسائی کے لنکس

لارڈز ٹیسٹ ، پاکستان کے سرخرو ہونے کا چانس موجود ہے


Navijač Obale Slonovače na AFCON-u.
Navijač Obale Slonovače na AFCON-u.

قومی کرکٹ ٹیم کی اوول ٹیسٹ میں میزبان انگلینڈکو شکست دینے کے بعد اب نظریں کل ہونے والے لارڈز ٹیسٹ میں سیریز برابر کرنے پر جمی ہوئی ہیں اور اس ٹیسٹ میں کامیابی کی صورت میں پاکستان سیریزبچا سکتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اوول اور لارڈز کی وکٹ میں زیادہ فرق نہیں اور یہاں بھی پاکستان کے سرخرو ہونے کا چانس موجود ہے ۔

کافی عرصے سے پاکستان کی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں خاطر خواہ کارکردگی پیش کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شائقین میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے۔ لیکن اوول ٹیسٹ میں فتح کے بعد امید کی ایک نئی کرن نے جنم لیا ہے۔ تاہم اگرپے در پے شکستوں پر غور کیا جائے تو اس میں دہشت گردی اور پی سی بی کے چند متنازعہ فیصلوں کے علاوہ بلے بازوں اور فیلڈرز کا کردار نمایاں ہے ۔

گزشتہ سال مارچ کا مہینہ پاکستانی کرکٹ کے لئے کافی بھاری ثابت ہوا ۔ تین مارچ دو ہزار نو میں دہشت گردوں کی جانب سے سری لنکن ٹیم پر حملے کی صورت میں پاکستان پر ایسا گھاؤ لگایا گیا کہ ابھی تک عالمی کرکٹ ٹیموں کے لئے پاکستان کے دروازے بند ہیں۔ دوسری طرف دس مارچ دو ہزار دس کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا کے دورے میں قومی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سفارشات پر محمد یوسف اور یونس خان پر ملک کی جانب سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی لگا دی جبکہ شعیب ملک اور رانا نوید الحسن پر ایک ایک سال کی پابندی لگائی گئی۔ شاہد آفریدی ، عمر اکمل اور کامران اکمل کو جرمانوں کی سزائیں سنا دیں ۔

ایسے وقت میں جب ملک میں عالمی کرکٹ نہیں ہو رہی تھی اورشائقین اپنی سر زمین پر دنیائے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو دیکھنے سے محروم ہو گئے تھے، ان سزاؤں نے دنیائے کرکٹ کے شائقین اور ماہرین کو حیران کر دیا ۔ ان واقعات کے جہاں پاکستانی کرکٹ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے وہیں کچھ مثبت پہلو بھی سامنے آئے ۔ ٹیم میں بعض نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا جنہوں نے اپنا انتخاب درست ثابت کر دیا اوربعض ایسے بالرز سامنے آئے جو دنیائے کرکٹ میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں ۔ تمام تر برے حالات اور پے در پے شکستوں کے باوجود کسی موقع پر پاکستانی بالرز نے بلے بازوں کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔

انہی بالرز میں ایک محمد عامربھی ہیں ۔دو ہزار نو میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی کے ورلڈ کپ میں محمد عامر کو پہلی مرتبہ پاکستان ٹیم میں شامل کیا گیا جس کے بعد انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف ٹی ٹوئنٹی بلکہ ایک روزہ اور ٹیسٹ میچ کے لئے بھی کسی سے کم نہیں۔ آف اسپنر سعید اجمل بھی کسی بھی ٹیم سے فتح چھیننے میں دیر نہیں کرتے جبکہ اب وہاب ریاض بلے بازوں کے لئے ایک خطرہ بن کر نمودار ہوئے ہیں جبکہ محمد آصف جیسے عظیم بالرز کی نمائندگی بھی کسی ٹیم کے لئے باعث فخر ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ تنویر احمد جن کا نام دورہ انگلینڈ میں شامل کیا گیا وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں وہاب ریاض سے بھی کامیاب بالر ہیں ۔

دوسری جانب کافی عرصے سے پاکستانی شکستوں میں بیٹنگ اور فیلڈنگ کا زیادہ عمل دخل نظر آتا ہے ۔اگر بیٹنگ کی بات کی جائے تو عمر اکمل کے علاوہ کوئی بڑا نام سامنے نہیں آ سکا ۔ حالیہ دورہ انگلینڈ میں عمر امین اور اظہر علی کا انتخاب کیا گیا ۔اظہر علی کو آزمایا گیا تاہم انہوں نے ابتدائی پانچ ٹیسٹ میچوں میں سوائے اوول ٹیسٹ میں 92 رنز کی اننگز کے علاوہ کوئی متاثر کن کارکردگی نہیں دکھائی جبکہ عمر امین کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے ۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بیٹنگ جن بلے بازوں پر انحصار کرتی تھی انہوں نے بھی شائقین کو سخت مایوس کیا ۔ دورہ انگلینڈ ہی کی بات کی جائے تو اب تک پانچ ٹیسٹ میچوں کی دس اننگز میں صرف ایک مرتبہ اوول ٹیسٹ کی آخری اننگز میں پاکستان کا مجموعی اسکور 300 سے اوپر پہنچا ۔شعیب ملک اور مصباح الحق جو بیٹنگ لائن میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیئے جاتے تھے وہ مسلسل ناکام ہوئے۔

عمران فرحت نے 38 میچوں میں صرف 32 کی اوسط برقرار رکھی ہوئی جو کسی بھی دوسری ٹیم میں بطور اوپنر ناقابل قبول ثابت ہو سکتی ہے ۔ عمران فرحت کے مقابلے میں اگر توفیق عمر جنہوں نے 25 میچوں میں تقریباً چالیس کی اوسط سے رنز بنا رکھے ہیں اگر شامل کر دیا جاتا تو اس سے پاکستانی بیٹنگ لائن کو کافی استحکام مل سکتا تھا ۔ اگر چہ 2009 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کپ کے بعد کپتان سلمان بٹ کی کارکردگی بہتر دکھائی دے رہی ہے تاہم ابھی تک وہ بھی ایک میچ ونر کے روپ میں سامنے نہیں آ سکے ۔

اگر یاسر حمید کو انگلینڈ کے خلاف پہلے میچوں میں آزمایا جاتا تو بھی بیٹنگ لائن پر کافی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے تھے ۔ کامران اکمل نے کیپنگ میں جہاں دورہ آسٹریلیا کی طرح دورہ انگلینڈ میں بعض سنگین غلطیاں کی ہیں وہیں زیادہ تر صفر پر آؤٹ ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر بالرز کا مقابلہ کرنے پر تیار نہیں ۔ ان کے بھائی عمر اکمل اگر چہ بہت اچھے کھلاڑی ہیں لیکن وہ بھی موجودہ سیریز میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ۔ اس کے علاوہ شعیب ملک اور مصباح الحق جیسے کھلاڑی گزشتہ کافی عرصے سے ناکام نظر آ رہے ہیں ۔

بیٹنگ اور فیلڈنگ کی ناکامی سے مایوس ہو کر بعض حلقے پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ سے دستبردار ہونے کے مشورے بھی دینے لگے تھے۔ ان کی تجویز تھی کہ روز روز قوم کے جذبات مجروع کرنے سے بہتر ہے کہ ایک بار ہی ٹیسٹ کرکٹ پر پابندی عائد کردی جائے ۔ لیکن شاید اب یہ کبھی ممکن نہ ہوسکے کیونکہ دنیا کی بہترین ٹیسٹ ٹیم کے انتخاب کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ورلڈکپ ٹیسٹ کپ کے آئیڈیا کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ امکان ہے کہ اس ٹورنامنٹ کا آغاز2013 سے ہوگا، لہذا اس اقدام سے ثابت ہو رہا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ انتہائی روشن ہے ۔

اگر حالیہ دورہ انگلینڈ کی بات کی جائے تو پاکستان نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف جو ایک ، ایک فتح حاصل کی وہ بھی بالرز کی بدولت ہی نصیب ہوئی ۔ پاکستانی بلے بازوں کو انتہائی کم ہدف عبور کرنے کو ملا لیکن بعض مواقعوں پر ایسا لگا کہ شاید میچ پاکستان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے ۔ماہرین کے مطابق پاکستان کی مٹی انتہائی ذرخیز ہے ، اگر یہاں سے عظیم بالرز جنم لے سکتے ہیں تو بلے بازوں کی بھی کوئی کمی نہیں ، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انہیں صحیح وقت پر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے ۔ عامر سجاد ، نوید یاسین اور شفیق ایسے نام ہیں جنہوں نے رواں سیزن کے دوران ڈومیسٹک کرکٹ میں جس طرح اپنا لواہا منوایا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔

اگر آج ہونے والے لارڈز ٹیسٹ کی بات کریں تو محمد یوسف کی ٹیم میں واپسی سے کھلاڑی کافی پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں اور یہاں کی وکٹ بھی اوول ٹیسٹ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے اور اسی لئے انگلینڈ نے فاسٹ بولر ٹیم بریسنن کو طلب کیا ہے۔ پارک شائر کے بولر کی شمولیت اس انگلش ٹیم میں واحد تبدیلی ہے۔ چیف سلیکٹر جیف ملر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیم خطرناک ہے، اوول میں پہلے دن بولرز نے جس طرح ریورس سوئنگ کی وہ تباہ کن تھی۔

پاک انگلینڈ سیریز میں پاکستانی بالرز نے انگلینڈ کے ٹاپ آرڈر بیٹسمین پیٹرسن، کولنگ ووڈ ، الیسٹر کک اور خود اینڈریو اسٹراس کو 30 کی اوسط سے آگے نہیں بڑھنے دیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لارڈز میں پاکستانی ٹیم کیسی کارکردگی دکھاتی ہے اور عام خیال یہ ہے کہ اگر بلے بازوں اور فیلڈرز نے بالرز کا ساتھ دیا تو فتح پاکستان سے دور نہیں ۔

XS
SM
MD
LG