رسائی کے لنکس

نصیر الدین شاہ کے بیان پر احتجاج کا سلسلہ جاری


نصیرالدین شاہ۔ فائل فوٹو
نصیرالدین شاہ۔ فائل فوٹو

ہجوم کے تشدد کے خلاف بالی ووڈ اداکار نصیر الدین شاہ کے بیان پر دائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اجمیر میں منعقدہ تین روزہ ادبی فیسٹیول کے پانچویں ایڈیشن کا افتتاح نصیرالدین شاہ کو کرنا تھا لیکن آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں کے کارکنوں کی مخالفت کے سبب ان کا کلیدی خطبہ منسوخ کر دیا گیا۔ ان کی ایک کتاب کا اجرا بھی ہونا تھا اسے بھی منسوخ کرنا پڑا۔

پروگرام سے قبل فیسٹیول کے باہر زبردست ہنگامہ ہوا۔ ایک شخص نے نصیر الدین شاہ کے پوسٹر پر سیاہی پھینک دی۔ فیسٹیول کا افتتاح جمعہ اور اختتام اتوار کے روز ہوا۔

اپنے خلاف ہو رہے احتجاج پر نصیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ’’ اس سے قبل میں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایک خوف زدہ ہندوستانی کی حیثیت سے کہا ہے۔ میں پہلے بھی ایسی باتیں کہتا رہا ہوں۔ لیکن اب اسی بات پر مجھے غدار کہا جا رہا ہے۔ یہ حیرت انگیز ہے‘‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’اگر ان لوگوں کو نکتہ چینی کا حق ہے تو مجھے بھی ہے۔ میں نے اُس ملک کے حالات پر تبصرہ کیا ہے جس سے مجھے پیار ہے اور جو میرا گھر ہے۔ لہٰذا میں نے جو بات کہی ہے وہ جرم کیسے ہو گئی‘‘۔

اجمیر فیسٹیول کے موقع پر ہونے والے احتجاج پر نئی دہلی میں متعدد ادیبوں اور دانشوروں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ پریس ایسو سی ایشن کے صدر جے شنکر گپتا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اجمیر میں جو کچھ ہوا ہے وہ بہت غلط ہوا ہے اور اس سے نصیر کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے‘‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’جس طرح ہندوستان میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے اس سے ہر امن پسند شہری کو تشویش ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا احساس عام لوگوں کو بھی ہے۔ جس طرح اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے ہر شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے‘‘۔

یاد رہے کہ نصیر الدین شاہ نے بلند شہر میں گائے کے مبینہ ذبیحے کے خلاف احتجاج کے دوران ایک پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی موت پر اظہار تشویش کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک گائے کی موت کو پولیس افسر کی موت سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے‘‘۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے فکرمند ہیں۔ اگر کوئی ہجوم انھیں گھیر لے اور ان کا مذہب پوچھے تو وہ کیا جواب دیں گے۔

اس بیان کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ہفتے کے روز لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ مودی حکومت کو بتائیں گے کہ اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے اقدامات کر رہی ہے۔

اس بیان پر بھارت کے مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما مختار عباس نقوی نے نکتہ چینی کی اور کہا کہ ’’پاکستان میں 1947 سے لے کر اب تک اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے‘‘۔

نصیرالدین شاہ نے بھی عمران خان سے کہا کہ وہ اپنے ملک کو دیکھیں اور ہمارے معاملات میں نہ بولیں۔

ادھر ایک اور بالی ووڈ اسٹار انوپم کھیر نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ نصیر الدین شاہ کو کتنی آزادی چاہیے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG