رسائی کے لنکس

داعش کو 'دائمی شکست' دینے میں عشرے لگ سکتے ہیں: اہل کار


اوباما انتظامیہ کے علاوہ دیگر مقتدر حلقے جو داعش کو خطرہ گردانتے ہیں، اُن کے لیے یہ ہدف اولین ترجیح کا معاملہ بن چکا ہے۔ تاہم، یہ غیر واضح ہے آیا 'دیرپا شکست' کیسے دی جائے اور ایسا کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا

داعش کے شدت پسندوں کو 'دائمی شکست' دینے کا معاملہ اعلیٰ امریکی اہل کاروں کی حکمتِ عملی کے لیے ایک چیلنج کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے اِسی ہفتے کنٹکی میں واقع فورٹ کیمپ بیل میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'ضروری ہے، اور ہم ایسا ہی کریں گے، کہ داعش کو شکست ِفاش دیں'۔ اُنھوں نے دولت اسلامیہ کو داعش کے نام سے پکارا۔

اُس روز اپنے خطاب میں کارٹر نے 'دائمی شکست' کا نو مرتبہ ذکر کیا؛ جب کہ فلوریڈا میں ٹمپا کے مقام پر امریکی سنٹرل کمانڈ میں اپنے کلمات میں اُنھوں نے یہ لفظ دو بار ادا کیا، جب وہ 'داعش کو شکست فاش دینے کی مجموعی حکمت ِ عملی' کا ذکر کر رہے تھے۔

اوباما انتظامیہ کے علاوہ دیگر حلقے جو داعش کو خطرہ گردانتے ہیں، اُن کے لیے یہ ہدف اولین ترجیح کا معاملہ بن چکا ہے۔ یہ غیر واضح ہے آیا 'دیرپا شکست' کیسے دی جائے اور ایسا کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا۔

مقامی افواج کی تیاری

مائیکل وکرز سابق معاون وزیر دفاع برائے انٹیلی جنس ہیں۔ اُنھوں نے منگل کے روز ایوانِ نمائندگان کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 'عالمی جہادیوں کو تب تک شکست نہیں ہوگی، جب تک اُس خطے میں اُن کا قلع قمع نہیں ہو جاتا جہاں وہ اس وقت دندناتے پھر رہے ہیں، اُن کے نظریے کو شکست نہیں ہوتی، اور مشرق وسطیٰ میں استحکام پیدا نہیں ہوتا'۔

اُنھوں نے متبنہ کیا کہ 'اس کے لیے لازم ہے کہ مقامی افواج، جن میں باضابطہ فوج اور اس سے ملحق فورس شامل ہے، اُن کی استعداد کو مضبوط تر بنانے کے لیے طویل مدتی سرمایہ کاری کی جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ کا مسلسل رابطہ قائم رہے'۔

اتحاد کے اعداد و شمار کے مطابق، اِس لحاظ سے کچھ اقدام پہلے ہی سے واضح اور موجود ہیں، خاص طور پر عراق میں، جہاں امریکہ اور دیگر اتحادی رُکن ممالک نے 17000 سے زائد عراقی اور کُرد فوجیوں کو تربیت فراہم کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مزید 2800 عراقی فوجی زیرِ تربیت ہیں۔

شام میں امریکہ افواج کو مشاورت اور اعانت فراہم کرتا رہا ہے، حالانکہ معتدل شامی فوجوں کو تربیت دینے کی کوششوں کی سطح میں کمی آئی ہے۔

باوجود اِس کے، شام میں سابق امریکی سفیر، رابرٹ فورڈ نے قانون سازون کو بتایا کہ یہ کاوشیں کافی ثابت نہیں ہوں گی، خصوصی طور پر شام میں مقامی افواج کے حوالے سے، جنھیں امریکہ اور اتحادی فضائی کارروائی کی مدد حاصل ہے، یہ بات عیاں ہوتی جاری ہے، جب ہم داعش کے لڑاکوں کے خلاف حاصل ہونے والی پیش رفت پر نگاہ ڈالتے ہیں۔

بجلی اور پانی کی سہولت کی فراہمی

فورڈ کے بقول، 'مقامی حکام جو بجلی کی ترسیل کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اسپتالوں کے کام کو جاری رکھنے کی سعی کر رہے ہیں اور پانی کی رسد کی فراہمی کو قائم رکھے ہوئے ہیں، اُنھیں مدد درکار ہوگی۔ داعش اِن چیزوں کو چلا رہا ہے۔ جب وہ وہاں نہیں رہتا تو اِن بنیادی شہری ضروریات کی فراہمی کو جاری رکھنا ہوگا'۔

اور سابق اہل کار متنبہ کرتے ہیں کہ اِس قسم کی مدد نہ صرف کی جائے بلکہ اُسے جاری رکھنا ہوگا، اُس صورت میں بھی جب عسکری قوت کے لحاظ سے داعش کا خاتمہ ہوجائے۔

مائیک موریل سی آئی اے کے سابق معاون سربراہ ہیں۔ اُن کے بقول، 'میں سمجتا ہوں کہ ہم آج سے 10، 15، 20 سال بعد کی بات کر رہے ہیں، جس دوران اس خطے میں خاطر خواہ امریکی موجودگی باقی رہے۔ جنوبی کوریا کی مثال لے لیں۔ وہاں ہم بہت ہی طویل مدت تک موجود رہے، تاکہ جزیرہ نما ملک میں استحکام کو یقینی بنا سکیں۔'

امریکی حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ نے انسانی ہمدردی کی بنا پر عراق کو 60 کروڑ ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے، اور رمادی جیسے شہروں کی تعمیر نو میں مدد دینے کے لیے پانچ کروڑ ڈالر کا مستقل فنڈ قائم کرنے میں مدد دی ہے، جس کی تباہی داعش کے لڑاکوں کی جڑیں اکھاڑنے کی لڑائی کے دوران منظر پر آئی۔

شام کے لوگوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے سلسلے میں اب تک امریکہ نے پانچ ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں۔

تاہم، چند سابق اہل کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ مستقل امریکی فوجی موجودگی کے بغیر، عراقی ایک بار پھر داعش یا اُس کے جانشین کے ہتھے چڑھ جائیں گے۔

سی آئی اے کے سابق سربراہ، جیمس وُلزی نے وائس آف امریکہ کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ، 'بات یہ ہے کہ معاملے کو چھیڑ کر وہاں سے مکمل طور پر ایک طرف ہو جانا درست نہ ہوگا۔ ہم نے جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں قدم رکھے اور مکمل طور پر واپس نہیں آئے۔ کوریا کی لڑائی کے بعد ہم نے جنوبی کوریا میں قدم رکھے اور اسے چھوڑ نہیں دیا۔ جہاں کامیابی حاصل کی گئی ہے، ہم وہاں رہے ہیں، اتحادیوں کے ہمراہ؛ اور اُس ملک میں جمہوریت اور خوش حالی لا کر رہے ہیں'۔

اِس لیے، عراق جیسے ملکوں میں امریکہ نے زیریں ڈھانچے کی تعمیر ِ نو کے لیے رقوم خرچ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اب سوال اٹھتا ہے آیا اس کے لیے ضروری سیاسی عزم موجود ہے، تاکہ مربوط قسم کی ملکی تعمیر کی کوششیں عمل میں لائی جائیں جن میں ضرورت ہے، تاکہ شیعہ اور سنی برادریوں کے مابین تفرقے کو دور کرنے کی طویل مدتی کوششیں کی جائیں اور موئثر حکومتیں قائم کی جائیں۔

سارہ شائس 'کارنیگی انڈومنٹ فور انٹرنیشنل پیس' میں ایک سینئر ایسو سی ایٹ ہیں۔ اُن کے الفاظ میں، 'ہم اس قسم کے حلقے کس طرح قائم کریں، جو واقعی اثر رکھتے ہوں؟ ہم اُنھیں اس عمل میں کس طرح داخل کر سکتے ہیں جس کے ذریعے ایسا عراق وجود میں آئے جو اپنے اوپر انحصار کرے؟'

شائس نے ایڈمرل مائیک ملن کے ساتھ مشیر خصوصی کے طور پر فرائض انجام دیے تھے، جب وہ امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے منصب پر فائز تھے۔ شائس نے کہا ہے کہ عراق میں مطلق العنان صدام حسین کا تختہ الٹے جانے کے بعد اور افغانستان میں طالبان کی شکست کے بعد، امریکہ نے 'زبانی کلامی کوششیں' کیں، جب کہ نئی قائم کردہ حکومتوں کو اُن کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا، کہ وہ خود ہی فرقہ وارانہ تقسیم اور بدعنوانی سے نمٹیں۔

اُنھوں نے کہا کہ 'اِن حکومتوں نے دانستہ طور پر حکومتی نظام کے نئے ڈھانچے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جسے ایک متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا تھا'۔ اُن کے خیال میں اب بھی اشد ضرورت باقی ہے کہ وہاں تحفظ کی فراہمی پر دھیان دیا جائے۔

پائیدار استحکام

اس ہفتے فوجیوں کو خطاب کرتے ہوئے، جو داعش کے شدت پسند گروہ کو شکست دینے کی کوشش کے حصے کے طور پر عراق میں تعینات ہونے والے ہیں، کارٹر نے اِن معاملوں پر دھیان دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

بقول اُن کے، 'ہماری فوج کی جانب سے پائیدار نتائج برآمد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خطے میں سیاسی استحکام پر مبنی دیرپہ صورت حال پیدا کریں'۔

بدھ کے روز اپنے ٹائون ہال ٹوئٹر پیغام میں 'آپریشن انہیرنٹ رِزالو' کے ترجمان، کرنل اسٹیو وارن نے بھی تسلیم کیا کہ ایک چیلنج کا سامنا ہے۔

بقول اُن کے، 'کامیاب شکست کے لیے عراق میں سیاسی مفاہمت ضروری ہے، جب کہ شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ لازم ہے۔ یہ صورتِ حال داخلی طور پر سیاسی عمل کے ذریعے ہی حاصل ہوگی'۔

XS
SM
MD
LG