امریکہ کی طرف سے غیر مخفی کی گئی ایک دستاویز میں دعویٰ کیا گیا کہ دسمبر 2009 میں مشرقی افغانستان میں امریکی خفیہ ادارے ’سی آئی اے‘ کی بیس پر خود کش دھماکے میں مبینہ طور پر پاکستان حقانی نیٹ ورک کے ذریعے ملوث تھا۔
تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس دستاویز کے مندرجات کی مکمل تردید کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی کہا ہے کہ پاکستان متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کو بلا امتیاز نشانہ بنائے گا۔
اس سے قبل القاعدہ اور طالبان کے لیے ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے اردن کے ایک ڈاکٹر پر اس حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر جمعرات کو شائع ہونے والی کیبلز میں کہا گیا کہ 2009 میں پاکستان کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘ نے افغانستان میں سی آئی اے کے تربیتی کیمپ پر حملہ کرنے کے لیے حقانی نیٹ ورک کو دو لاکھ ڈالر فراہم کیے تھے۔
خوست کے فارورڈ آپریٹنگ بیس "چیپمین" پر ہونے والا حملہ خفیہ ادارے کی تاریخ کے مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا جس میں سات اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے تھے۔
یہ کیبلز جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے غیر سرکاری ادارے ’نیشنل سکیورٹی آرکائیو‘ نے آن لائن شائع کی ہیں جو اس نے معلومات تک رسائی کی آزادی کے قانون کے تحت محکمہ خارجہ سے حاصل کیں۔ ان کیبلز کو بہت جگہوں پر نظر ثانی کر کے شائع کیا گیا ہے۔
تاہم محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو اپنی پریس بریفنگ میں اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ یہ کیبلز محکمہ خارجہ کی نہیں مگر انہوں نے ان کے ماخذ کے بارے میں بتانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انٹیلی جنس معاملات پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستانی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر متواتر اس توقع کی وضاحت کر چکا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک، القاعدہ اور لشکر طیبہ سمیت تمام شدت پسند گروہوں کو نشانہ بنائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی حکومت بھی یہ بات متعدد مرتبہ کھلے عام کہہ چکی ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے ایجنڈے اور وابستگی سے قطع نظر ان (کے خلاف کارروائی) میں امتیاز نہیں کرے گی۔
امریکہ نے 2012 میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد گروہ قرار دیا تھا۔
پاکستان نے جون 2014 میں مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں بشمول حقانی نیٹ ورک کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب نامی فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ بعد میں خیبر ایجنسی میں بھی خیبر ون اور خیبر ٹو کے نام سے کارروائیاں کی گئیں۔
پاکستان کی فوج نے ان آپریشنز میں اب تک 3,500 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم ان اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکی کیونکہ ان علاقوں میں میڈیا کے نمائندوں کی رسائی نہیں۔