رسائی کے لنکس

جمہوریت 70 برسوں میں بہت زیادہ مستحکم نہیں ہوئی: مبصرین


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مبصرین مختلف بحرانوں اور اتار چڑھاؤ کے باوجود حالیہ برسوں میں جمہوریت کو آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں اور ان کے خیال میں ماضی کی نسبت ملک میں جمہوری عمل قدرے بہتر ہوا ہے۔

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 70 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ لیکن اتنا وقت گزرنے کے باوجود مبصرین کے خیال میں ملک میں جمہوریت اتنی توانا نہیں ہو سکی جتنا اتنے عرصے میں اسے ہونا چاہیے تھا۔

ملک کی 70 سالہ تاریخ میں 30 برس سے زائد فوجی آمریت کا دور رہا اور اس دوران قلیل وقفوں پر محیط جمہوری ادوار میں ماسوائے گزشتہ دورِ حکومت کے کوئی بھی منتخب حکومت یا پارلیمان اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کر سکی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال ہے جس میں اگر جمہوری عمل کو پورے طریقے سے چلنے دیا جاتا تو حالات مختلف ہوتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے پہلے 10 سال کو دیکھا جائے تو مکمل سیاسی عدم استحکام نظر آتا ہے۔ جس کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان کا 10 سالہ دورِ آمریت ہے جس کے دوران سیاسی جماعتوں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

لیکن مظہر عباس کے خیال میں اس میں کسی حد تک قصور وار خود سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔

"سیاسی جماعتیں بھی اپنے آپ کو جمہوری بنانے کی طرف آگے نہیں بڑھیں بلکہ ان سازشوں کا حصہ بنی رہیں کہ جن سازشوں کے تحت جمہوریت کو کمزور کیا گیا۔ جمہوریت کی کمزوری میں جہاں فوجی مارشل لا ذمہ دار ہے وہیں سیاست دان بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں کہ انھیں جب موقع ملا تو انھوں نے نہ اچھی طرزِ حکمرانی کی مثالیں قائم کیں اور نہ ہی اداروں کو مضبوط کرنے کی طرف گئے۔"

سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ملک میں رائے دہندگان کی بھی مناسب تربیت نہیں کی جا سکی جس کی وجہ سے وہ سیاسی جماعتوں کے منشور یا نظریات کے بجائے شخصیات کو ہی ووٹ دیتے آئے ہیں۔

ان کے بقول جمہوری قوتوں کے غیر جمہوری طاقتوں سے مقابلے نے بھی جمہوریت کو پوری طرح پنپنے کا موقع نہیں دیا۔

"ہم ایک پسماندہ معاشرہ ہیں۔ ہمارے پاس تعلیم کی وہ سطح نہیں ہے جہاں پر ووٹر اور رائے دہندگان اور عوام اپنے رہنماؤں کا انتخاب شعوری طور پر کریں۔۔۔ ہماری جو خاص سیاست ہے اس میں مسئلہ سیاسی قوتوں کا نہیں، سیاسی قوتوں کا مقابلہ غیر منتخب قوتوں سے ہے جس میں سازشیں اور دوسرے کئی مسائل شامل ہیں۔"

تاہم مبصرین مختلف بحرانوں اور اتار چڑھاؤ کے باوجود حالیہ برسوں میں جمہوریت کو آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں اور ان کے خیال میں ماضی کی نسبت ملک میں جمہوری عمل قدرے بہتر ہوا ہے۔

اس میں متحرک ذرائع ابلاغ اور سیاسی و سماجی حلقوں کی سرگرمی کا بھی بڑا عمل دخل ہے جن کی وجہ سے مخالفت کے باوجود بات کہے اور سنے جانے کا رویہ فروغ پا رہا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں، "اٹھارہویں ترمیم کے بعد چیزیں نسبتاً جمہوری حوالے سے بہتر ہوئی ہیں اور آج بھی اگر نواز شریف صاحب گئے ہیں بحیثیت وزیراعظم تو حکومت اپنی جگہ کسی نہ کسی حوالے سے قائم ہے۔ پارلیمنٹ اپنی جگہ موجود ہے۔"

حالیہ برسوں میں متعدد مواقع پر سیاسی بدامنی کے باوجود ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے طرف سے اس عزم کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کسی بھی غیر جمہوری طریقے سے ملک میں جمہوریت کو ختم کرنے کی ہرگز حمایت نہیں کریں گی۔

XS
SM
MD
LG