رسائی کے لنکس

پاکستان میں ڈینگی سے 16 اموات، کیسز 9000 سے تجاوز


مختلف شہروں میں ڈینگی بخار کے مریضوں میں اضافے کے باعث اسپتالوں میں مزید مریضوں کی گنجائش موجود نہیں ہے — فائل فوٹو
مختلف شہروں میں ڈینگی بخار کے مریضوں میں اضافے کے باعث اسپتالوں میں مزید مریضوں کی گنجائش موجود نہیں ہے — فائل فوٹو

پاکستان میں وزارتِ صحت کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ ملک بھر میں رواں سال ڈینگی کے مریضوں کی تعداد 9 ہزار تک جا پہنچی ہے۔ ڈینگی سے سب زیادہ متاثرہ شہروں میں کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی شامل ہیں۔

قومی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، سندھ میں اب تک 2132، پنجاب میں 2076، بلوچستان میں 1772، خیبر پختونخوا میں 1612 جب کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی 92 کیسز کا اندراج ہوا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ڈینگی بخار کے باعث ملک بھر میں 16 افراد کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔

ڈینگی بخار ایک خاص قسم کے مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ یہ مچھر عام طور پر صاف اور کھڑے پانی میں پایا جاتا ہے۔

یہ مچھر انسانی خون کے سفید خلیات کو متاثر کرتا ہے جبکہ ان کی تعداد تیزی سے کم ہونے لگتی ہے اور اگر بر وقت علاج نہ ہو سکے تو یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

سال 2011 میں بھی یہ مرض وبائی شکل اختیار کر گیا تھا۔
سال 2011 میں بھی یہ مرض وبائی شکل اختیار کر گیا تھا۔

'اداروں کے درمیان ربط کا فقدان ہے'

پاکستان میں رواں سال ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے پر حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اس مرض کے بڑھنے کی وجہ حکومت کی نااہلی قرار دے رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ یہ اداروں کا کام ہے۔

ان کے بقول، ادارے اور میڈیا صرف اسی وقت متحرک ہوتے ہیں جب یہ مرض وبائی شکل اختیار کر جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کام وزیر اعظم کا نہیں ہے کہ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو اس مرض سے بچنے کے طریقے بتائیں۔ اس مچھر کے لاروا کی افزائش روکنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنا محکمہ صحت اور دیگر اداروں کا کام ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ ڈینگی کا تدارک صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم اپنے رویوں میں تبدیلیاں لائیں گے۔

ان کے بقول، صفائی ستھرائی کو اپنانے کے علاوہ گھر میں کسی بھی جگہ صاف پانی کو جمع نہ ہونے دینا شہریوں کی ذمہ داری ہے۔

ماہرین صحت اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ڈینگی بخار کے مزید کیسز رپورٹ ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ انسداد ڈینگی کی کوششوں کا اب کوئی فائدہ نہیں اب یہ مرض حملہ آور ہو چکا ہے۔

ڈینگی کے مریضوں کے لیے اسپتالوں میں خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔
ڈینگی کے مریضوں کے لیے اسپتالوں میں خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔

'ہر چار سال بعد ایسا سپیل آتا ہے'

وزارتِ صحت کے مطابق، راولپنڈی اور اسلام آباد میں رواں سال سیکڑوں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جڑواں شہروں کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں بڑی تعداد میں مریض ڈینگی بخار کے علاج کے لیے زیر علاج ہیں۔

سیکریٹری صحت پنجاب کیپٹن(ر) محمد عثمان نے اعتراف کیا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں 1844 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں انسداد ڈینگی ٹیموں کی غفلت کا انکشاف ہوا ہے جس میں ملوث سرکاری اہل کاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی کا مرض ہر چار سال بعد زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتا ہے۔ 2011 کے بعد 2015 اور اب 2019 میں یہ زیادہ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔

سیکریٹری صحت کیپٹن(ر) محمد عثمان کی جانب سے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا گیا جس میں پنجاب بھر کے سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی بخار کی تشخیص کے ٹیسٹ بلا معاوضہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ڈینگی بخار کی علامات کیا ہیں؟

ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی مچھر اگر کسی کو کاٹ لے تو تیز بخار کے ساتھ سر اور جوڑوں میں درد کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مریض بے حال ہو جاتا ہے اور تیز بخار کے علاوہ متلی اور قے بھی آتی ہے۔

خیال رہے کہ 2011 میں بھی پاکستان میں ڈینگی کا مرض وبائی شکل اختیار کر گیا تھا۔

ڈینگی سے سب سے زیادہ متاثر لاہور ہوا تھا، جہاں ہزاروں افراد ڈینگی بخار میں مبتلا ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG