رسائی کے لنکس

ڈنمارک کا 120 سال پرانا لائٹ ہاؤس نئی جگہ پر منتقل


لائٹ ہاؤس کو نئی جگہ پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
لائٹ ہاؤس کو نئی جگہ پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

ڈنمارک میں انجنیئرز نے سوا سو سال پرانے ایک لائٹ ہاؤس کو سمندر کے ساحل سے اکھاڑ کر ایک بڑی گاڑی پر لادا اور اسے ساحل سے 263 فٹ پیچھے لے گئے تاکہ اسے وہاں نصب کیا جا سکے۔

بندرگاہوں کے قریب ساحلی علاقے میں عموماً بلند ٹاور نصب کیے جاتے ہیں جن پر طاقت ور روشنیاں لگائی جاتی ہیں تاکہ رات کے وقت سمندر میں سفر کرنے والے بحری جہازوں کو کئی میل دور سے نظر آئیں اور ساحل تک پہنچنے کے لیے ان کی رہنمائی ہو سکے۔ ایسے ٹاور کو لائٹ ہاؤس کہا جاتا ہے۔

ڈنمارک کا یہ لائٹ ہاؤس ربجرگ کنوڈ ٹاور کہلاتا ہے۔ یہ 76 فٹ بلند ہے۔ اس کی تعمیر تقریباً سوا سو سال پہلے شروع ہوئی تھی اور مکمل ہونے کے بعد 1900 میں اسے پہلی بار روشن کیا گیا تھا۔

جب لائٹ ہاؤس بنایا گیا تو اس وقت وہ سمندر سے 656 فٹ کے فاصلے پر تھا، مگر آہستہ آہستہ سمندر ساحل کو کاٹتا رہا اور 120 سال کے بعد وہ لائٹ ہاؤس سے محض 20 فٹ کے فاصلے پر رہ گیا، جس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں وہ سمندر میں ہی غرق نہ ہو جائے۔

ڈنمارک کے انجنیئرز نے 76 فٹ بلند اور تقریباً ایک ہزار ٹن وزنی ٹاور کے اپنے مقام سے اکھاڑ کر 263 فٹ پیچھے لے جانے کا فیصلہ کیا۔

علاقے کے میئر ارنی بولٹ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ ایک مشکل اور خطرناک کام تھا کیونکہ ایک ہزار ٹن وزنی 76 فٹ بلند ٹاور ایک 200 فٹ اونچی چٹان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ٹاور کے گرنے کا خطرہ بھی موجود تھا، تاہم یہ چیلنج قبول کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ لائٹ ہاؤس کو ایک خصوصی ٹریلر میں ایک خاص تکنیک سے لاد کر اپنے نئے مقام پر پہنچایا گیا۔ اس کی منتقلی میں 10 گھنٹوں سے زیادہ وقت لگا اور گاڑی کی رفتار 26 فٹ فی گھنٹہ رکھی گئی۔

ڈنمارک کے وزیر ماحولیات لی ورملین نے کہا ہے کہ یہ لائٹ ہاؤس ایک قومی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے گرنے سے بچانے اور نئی جگہ پر منتقل کرنے پر ساڑھے 7 لاکھ ڈالر لگے ہیں۔

لائٹ ہاؤس کو 1968 میں ریٹائر کر کے اسے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن چند عشروں کے بعد اسے اس لیے بند کرنا پڑا کیونکہ اس کے نیچے کی زمین آہستہ آہستہ دھنس رہی تھی۔ حتیٰ کہ اس سے ملحق دو عمارتیں زمین میں دھنس گئیں۔ لیکن اس تاریخی ورثے کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور ہر سال لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد وہاں جاتے رہے۔

لائٹ ہاؤس کے قریب واقع ایک گرجا گھر کو 2008 میں گرا دیا گیا تھا، کیونکہ اس کے نیچے سے زمین کھسک رہی تھی اور گرجا گھر کے سمندر میں گرنے کا خطرہ تھا۔ یہ ایک تاریخی گرجا تھا جسے 1250 کے لگ بھگ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس گرجا گھر پر بننے والی ایک فلم نے 1987 میں غیر ملکی زبان کا آسکر ایوارڈ جیتا تھا۔

جس چٹان پر لائٹ ہاؤس بنایا گیا تھا، اس کی زمین ریتلی تھی جو آہستہ آہستہ کھسکتی رہی اور سمندر قریب تر آتا رہا۔

لائٹ ہاؤس کی منتقلی کا منظر ڈنمارک کے کئی ٹی وی چینلز نے براہ راست دکھایا۔

XS
SM
MD
LG