رسائی کے لنکس

ایران جوہری معاہدے پر امریکہ اور فرانس کے اختلافات برقرار


صدر ٹرمپ فرانسیسی صدر میکرون کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ فرانسیسی صدر میکرون کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔

ایران کے ساتھ یورپ اور امریکہ کے جوہری معاہدے کے بارے میں صدر ٹرمپ کو جو اعترضات ہیں، ان کے حوالے سے فرانس کے صدر نے امریکہ کے اپنے دورے میں صدر ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ معاہدے میں بعض ترامیم کے ساتھ اسے برقرار رکھا جائے۔ لیکن مبصرین کے بقول صدر ٹرمپ اس سلسلے میں کوئی وعدہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں جب برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن لارڈ نذیر احمد سے سوال کیا گیا کہ یورپ اس سلسلے میں کیا موقف رکھتا ہے تو انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اور یورپی ممالک ایران کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خود امریکہ میں بھی محکمہ خارجہ اور دوسرے متعلقہ ادارے اس کے حق میں ہیں ۔ صرف صدر ٹرمپ اسے پسند نہیں کرتے

لارڈ نذیر نے کہا کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ فرانسیسی صدر میکرون کو صدر ٹرمپ اس بات پر آمادہ کر لیں گے کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے کو ترک کردیں اور ایران پر نئی پابندیاں لگائی جائیں۔ لیکن یہ نہیں ہوا اور فرانس کے صدر نے واضح انداز میں کہا کہ ہم اس معاہدے کا احترام کریں گے خواہ اس پر اختلاف بھی ہوں تو ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لابیز ایسی ہیں جو ایران پر دباوُ جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں بھی امریکہ اسی طرح اکیلا رہ جائے گا جس طرح ماحولیات کے معاہدے سے نکل کر وہ اکیلا رہ گیا تھا ۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ایران معاہدے میں ان ترامیم سے اتفاق کرے گا جو فرانسیسی صدر نے صدر ٹرمپ سے گفتگو میں تجویز کی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ایران پہلے ہی کہ چکا ہے کہ اگر معاہدہ توڑا گیا تو وہ اپنا جوہری پروگرام پھر سے شروع کردے گا جو دنیا نہیں چاہتی کیونکہ اس طرح ایک جانب تو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی اور سعودی عرب سمیت دوسرے ممالک بھی ان ہتھیاروں کی دوڑ میں شریک ہو جائیں گے بلکہ یہ اسرائیل کے لئے بھی خطرناک بات ہو گی کیونکہ ایران کے پا س ایسے میزائیل موجود ہیں جو جوہری ہتھیار لے جاسکیں اور یہ صورت حال ان کے لئے بھی خطرناک ہو گی جو اس پالیسی کی وکالت کر رہے ہیں کیونکہ اب روس۔ایران اور پاکستان بھی اپنی نئی جیو پولیٹیکل گروپنگ کررہے ہیں اور مغربی ماہرین اس سے غافل نہیں ہیں۔ وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ معاہدہ اگر ترک کیا جاتا ہے تو ایران کتنا خطرناک ثابت ہو گا ، انہوں نے کہا کہ بس اتنا ہی جتنا اس معاہدے سے پہلے تھا۔ تاہم علاقائی کشیدیگیاں بہت بڑھ جائیں گی اور خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔

واشنگٹن کے فارن پالیسی کونسل کے ایلان برمن کا کہنا تھا کہ فرانس کے صدر کا دورہ اور ہفتے کے اختتام پر جرمن چانسلر کا ہونے والا دورہ۔ دونوں کا مقصد ایک ہی ہےکہ صدر ٹرمپ کو قائل کیا جائے کہ وہ ایران کے ساتھ کئے گئے جوہری معاہدے پر قائم رہیں۔ انہوں کہا کہ فرانسیسی صدر نے بعض ترامیم بھی تجویز کیں لیکن اس کے باوجود بھی یہ وہی پرانا معاہدہ ہی رہے گا جو صدر ٹرمپ کو پسند نہیں ہے اور انہوں کہا کہ ان کے خیال میں اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ جب معاہدے کی توثیق کا وقت آئے تو وہائٹ ہاوُس اس کی توثیق نہ کرے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہونا ہے کیونکہ ابھی تک وہائٹ ہاوُس نے اس بارے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی ہے اور اس پر حکومت کام کر رہی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اگر معاہدے میں کچھ ترامیم کی گئیں تو کیا ایران انہیں منظور کرلے گا، ایلان برمن نے کہا کہ ایران کو اس معاہدے سے بہت فائدے ہیں۔ ابتدا میں وہ اس پر مزاحمت کریں گے لیکن آخر کار تبدیلیوں پر غور کیلئے مجبور ہو جائیں گے۔

انہوں کہا کہ وائٹ ہاوُس میں جو لوگ اس معاہدے پر کام کررہے ہیں ان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ مجوزہ ترامیم ہو بھی جائیں تب بھی معاہدہ خاطر خواہ نہیں ہو گا اور ان لوگوں میں صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے نئے مشیر اور آنے والے وزیر خارجہ بھی شامل ہیں جن کی جلد ہی توثیق ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG