رسائی کے لنکس

دلیپ کمار کے لیے سائرہ بانو کو اردو اور فارسی پڑھنا پڑی


دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی شادی 1966 میں ہوئی تھی۔ (فائل فوٹو)
دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی شادی 1966 میں ہوئی تھی۔ (فائل فوٹو)

دلیپ کمار شوبز دنیا کی ان چند ہمہ جہت شخصیات میں سے ہیں جن کا تذکرہ صرف فنِ اداکاری میں ان کے کمالات تک محدود نہیں رہتا۔ بات نکلتی ہے تو شاعری، کتابوں سے محبت اور کانوں میں رس گھولتے اُن کے اُردو لہجے کی جانب چل پڑتی ہے۔

ان کی خود نوشت ’دلیپ کمار: دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ کے پیش لفظ میں ادب اور مطالعے سے ان کی محبت کو ان کی شریکِ حیات سائرہ بانو نے خاص طور پر اجاگر کیا ہے۔

سائرہ بانو لکھتی ہیں، "دلیپ صاحب کے ان گنت پرستاروں میں سے کم ہی یہ جانتے ہیں کہ وہ ایک باذوق قاری ہیں۔ ناول، ڈرامے، سوانح حیات اور سب سے بڑھ کر کلاسیکی لٹریچر انہیں سب سے زیادہ پسند ہیں۔ جب وہ لائبریری میں رکھے بک شیلف کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں تو ہمیں اپنے اسٹور روم میں رکھی ہزاروں کتابوں میں سے مزید منتخب کر کے انھیں پیش کرنا پڑتی ہیں۔"

وہ مزید لکھتی ہیں، "میں نے ان کے ساتھ جو عمر گزاری ہے اس میں ہمیشہ ان کی آرام کرسی کے ساتھ ریڈنگ لیمپ کو رات سے صبح تک جلتے ہی دیکھا۔ پھر چاہے وہ ممبئی میں اپنا گھر ہو یا جموں و کشمیر کے ڈاچیگام کا کوئی ڈاک بنگلہ۔ دلیپ کمار جہاں بھی گئے بقول سائرہ بانو کتاب ان کی رفیق رہی۔"

سائرہ بانو مزید لکھتی ہیں کہ جب وہ سوانح حیات یا کلاسیکی ادب یا یوجین او نیل، جوزف کونریڈ کا کوئی ڈرامہ یا دوستوفسکی، ٹینیسی ولیمز کا کوئی فن پارہ نہیں بھی پڑھ رہے ہوتے تھے تو اگلی صبح فلمائے جانے والے کسی منظر کے اسکرپٹ میں کھو جاتے تھے۔"

کتاب سے محبت کب شروع ہوئی؟

ادب سے دلیپ کمار کا لگاؤ اس وقت شروع ہوا جب وہ صرف یوسف خان تھے۔ مطالعے سے رغبت اور اپنی شخصیت سازی کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں دلیپ کمار اپنی خود نوشت میں اپنے بڑے بھائی ایوب خان کا تذکرہ کرتے ہیں جنہیں وہ ایوب صاحب پکارا کرتے تھے۔

اپنی خود نوشت میں دلیپ کمار نے جابجا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ادب سے ان کا لگاؤ پیدا کرنے میں ایوب صاحب نے بنیادی کردار ادا کیا۔

ایوب صاحب ان سے عمر میں ایک ڈیڑھ برس ہی بڑے تھے۔ بیماری کی وجہ سے وہ اسکول کالج میں رسمی تعلیم تو حاصل نہیں کر سکے تھے البتہ انہیں گھر ہی پر اردو میں تعلیم دی گئی تھی۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایوب صاحب کو سانس کی تکلیف ہو گئی جس کی وجہ سے انہیں علاج کے لیے بمبئی سے 180 کلومیٹر دور دیولالی لے جایا گیا اور دلیپ کمار بھی اپنے بھائی کے ساتھ وہاں رہے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں ایوب صاحب سے زیادہ قریب تھے۔

دلیپ کمار اپنی خود نوشت میں بتاتے ہیں کہ دیولالی میں ایوب صاحب زیادہ تر وقت مطالعہ کر کے گزارتے تھے۔ اس عرصے میں اردو ادب کی جو کتاب بھی ان کے ہاتھ لگتی تھی وہ پڑھ ڈالتے۔ انہیں زیادہ تر ناول پڑھنا پسند تھا لیکن اخبار میں شائع ہونے والے مضامین اور افسانے بھی ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے۔

ایوب خان ادب پڑھنے کے ساتھ ساتھ کہانیاں بھی لکھتے تھے۔ اردو کے نامور افسانہ نگار اور ادیب میرزا ادیب نے اپنی خود نوشت ’مٹی کا دیا‘ میں لکھا ہے کہ جب وہ ادبی جریدے ’ادبِ لطیف‘ کے مدیر تھے تو ایوب خان کہانیاں لکھا کرتے تھے اور اسی دور میں دونوں کے درمیان خط و کتابت شروع ہوئی جو بعد میں قریبی تعلق میں بدل گئی۔

جس طرح یوسف خان نے فلمی دنیا میں کریئر کا آغاز کیا تو یوسف خان سے دلیپ کمار ہو گئے تھے، اسی طرح میرزا ادیب کے مشورے پر ان کے بڑے بھائی نے بھی ایوب سرور کا قلمی نام اختیار کیا اور اس نام سے کہانیاں لکھیں۔

مغربی ادب سے تعارف

اپنے بڑے بھائی ایوب صاحب سے قربت نے دلیپ کمار کو مغربی ادب سے بھی روشناس کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دیولالی میں وہ اپنے بڑے بھائی کو فرانسیسی ادیب موپساں کے افسانوں کے تراجم پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔

موپساں کی کہانیوں نے دلیپ کمار کو بہت متاثر کیا۔ وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ان کہانیوں کے پلاٹ اور موپساں کی کہانی بیان کرنے کی مہارت نے انہیں مسحور کر دیا۔ جس کے بعد انگریزی اور یورپی مصنفین کو پڑھنے کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ اپنے اسکول کی لائبریری میں ایسی ہر کتاب تلاش کر کے پڑھ ڈالی۔

اردو کی وجہ سے نوکری ملی

مغربی ادب اور خاص طور پر اردو شعر و ادب سے جو لگاؤ ایوب صاحب نے اپنے بھائی میں پیدا کیا تھا، وہ ان کے فلمی کریئر میں تو ان کی شناخت کا حوالہ بنا ہی، اردو میں مہارت بطور اداکار بھی ان کے فنی سفر کے آغاز کا سبب بنی۔

وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ اس دور کے بڑے فلم اسٹوڈیو ’بومبے ٹاکیز‘ میں ان کی ملازمت کے آغاز کی وجہ ہی اردو میں ان کی مہارت تھی کیوں کہ اسٹوڈیو کی مالکن دیویکا رانی نے پہلے ان سے اردو میں مہارت کا سوال کیا تھا اور مثبت جواب ملنے ہی پر انھیں اداکاری کی پیش کش کی گئی تھی۔

دلیپ کمار کے والد فلموں میں اداکاری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے بومبے ٹاکیز میں اپنی ملازمت کی بات انہوں ںے اپنے والد سے چھپائے رکھی۔

دلیپ کمار لکھتے ہیں کہ جب والدہ نے ان کی نوکری کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس سے اتنی تنخواہ ملے گی کہ گھر کے اخراجات با آسانی پورے ہو جائیں گے۔

لیکن ان کی والدہ کو یہ فکر تھی کہ ایسی کون سی نوکری ہے جس میں انہیں اتنا بھاری معاوضہ مل رہا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ اپنی اماں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ میں ایک باعزت نوکری کر رہا ہوں، میں نے انہیں بتایا کہ یہ نوکری مجھے اچھی اردو کی وجہ سے ملی ہے اور وہ اس جواب پر مطمئن ہو گئیں۔

جب سائرہ بانو نے اردو اور فارسی پڑھی

دلیپ کمار اردو اور فارسی ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ جب نوجوان سائرہ بانو کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے دلیپ کمار کو متاثر کرنے کے لیے ان زبانوں کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔

اپنی خود نوشت میں دلیپ کمار نے لکھا ہے کہ سائرہ بانو کی والدہ نسیم بانو کا ان کے گھر آنا جانا تھا جو ان کے بھائی ایوب خان کی بنائی گئی ایک فلم میں کام کر چکی تھیں اور دلیپ کمار انہیں نسیم آپا کہا کرتے تھے۔ نسیم بانو فلمی اداکارہ تھیں اور ان کی والدہ شمشاد عبدالوحید خان کا شمار ہندوستان کے مقبول کلاسیکی گلوکاروں میں ہوتا تھا۔

دلیپ کمار کے گھر پر اکثر موسیقی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں جن میں اس دور کے بڑے گلوکار آیا کرتے تھے۔ انہیں محفلوں میں انہیں نسیم بانو سے معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی سائرہ لندن میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

لندن میں تعلیم کے دوران ہی سائرہ بانو نے دلیپ کمار کی فلم ’آن‘ دیکھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہیں مشترکہ دوستوں سے معلوم ہوا کہ سائرہ بانو اپنی والدہ کے نام خطوط میں دلیپ صاحب کی پسند و ناپسند کے بارے میں پوچھتی ہیں اور انہوں نے یہ بھی معلوم کر لیا ہے کہ مجھے شاعری اور فارسی زبان سے کس قدر محبت ہے۔

بعد میں دلیپ کمار کو علم ہوا کہ سائرہ بانو نے لندن سے واپس آ کر اپنی والدہ نسیم بانو کو قائل کر کے اردو اور فارسی کی ٹیوشن کے لیے ایک مولوی صاحب کو رکھ لیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں "یہ مجھے متاثر کرنے کے لیے ان کا منصوبہ تھا! ایک بھرپور کوشش، اور اس کوشش نے مجھے بہت مسرور کیا۔" بعد ازاں سن 1966 میں سائرہ بانو اور دلیپ کمار شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔

فلم انڈسٹری میں ایک سے بڑھ کر ایک فن کار اردو زبان و بیان پر دلیپ کمار کی گرفت اور ان کے شعری ذوق کا معترف ہے۔ اس فہرست میں ان کے سینیئر اور جونیئر فن کاروں کے ساتھ اپنے وقت کے نامور اسکرپٹ رائٹرز اور پروڈیوسرز بھی شامل تھے۔

دلیپ صاحب کے اپنے لہجے میں یہ پختگی اور تلفظ کی درست ادائیگی ریاضت کے ساتھ ساتھ کلاسیکی ادب کے مطالعے اور خصوصاً شعری ذوق سے پیدا ہوئی۔

وہ اپنی خود نوشت میں میر، غالب، فیض کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کی گفتگو میں بھی نظیر اکبر آبادی سے لے کر اکبر الہ آبادی تک کے حوالے جا بجا ملتے تھے۔

فن و ادب سے دلیپ کمار کا تعلق اتنا گہرا تھا کہ اس کا کون سا پہلو بیان میں آئے اور کون سا چھوڑ دیا جائے، یہ فیصلہ کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے اور وہی کیفیت ہوتی ہے جسے انہوں نے اپنی خود نوشت کا انتساب اپنے والدین کے نام کرتے ہوئے اس شعر میں بیان کی ہے:

سکونِ دل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے پھر انہیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے
کہاں سے چھوڑوں فسانہ کہاں تمام کروں

XS
SM
MD
LG