رسائی کے لنکس

ٹرمپ سے بدظن، امور خارجہ کے نامور افراد کلنٹن کے گرد جمع


بقول پیٹر منصور، ’’ٹرمپ اس عہدے کے لیے بالکل ہی غیر موزوں ہیں۔ اُن کا انداز، اُن کی انا پرستی، الفاظ پر کنٹرول نہ ہونے کی عادت، یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کے باعث کسی بھی صدر کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے‘‘

پیٹر منصور ری پبلیکن پارٹی کے خودساختہ عمر بھر کے حامی اور امور خارجہ پالیسی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

وہ امریکی فوج کے ریٹائرڈ کرنل ہیں جو ووٹنگ کے اپنے قدامت پسندانہ سوچ میں پختہ ہیں۔ منصور کے بقول، ’’ریگن سے رومنی تک میں نے ہر ری پبلیکن صدارتی امیدوار کو ووٹ دیا ہے‘‘۔ عراق جنگ کے دوران وہ سابق جنرل ڈیوڈ پیٹریس کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔

تاہم، اس سال، ڈونالڈ ٹرمپ کو پارٹی کی طرف سے نامزدگی دیے جانے پر، اُن کی سوچ ڈاواں ڈول سی لگتی ہے۔ منصور نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ٹرمپ اس عہدے کے لیے بالکل ہی غیر موزوں ہیں۔ اُن کا انداز، اُن کی انا پرستی، الفاظ پر کنٹرول نہ کرنے کی عادت، یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کے باعث کسی بھی صدر کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے‘‘۔

منصور اُن ری پبلیکنز میں سے ہیں جن کی تعداد بڑھ رہی ہے، خاص طور پر قومی سلامتی کی اسٹیبلشمنٹ میں، جو ٹرمپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ منصور کی طرح کے کئی لوگ، نہ صرف یہ کہ وہ ری پبلیکن پارٹی کے نامزد امیدوار کی مذمت کرتے ہیں بلکہ وہ اُن کی ڈیموکریٹک حریف ہیلری کلنٹن کی حمایت کا غیر معمولی قدم تک اٹھا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’کئی پالیسیوں پر میں ہیلری کلنٹن سے اتفاق نہیں کرتا۔ لیکن، بحیثیتِ انسان اُن میں صدر بننے کی اہلیت ہے۔ وہ چست ہیں۔ وہ نپی تُلی بات کرتی ہیں۔ وہ اپنے مشیروں کی نصیحت کو قبول کرتی ہیں۔ وہ تجربہ کار ہیں‘‘۔

منصور اور دیگر خارجہ پالیسی کے شاہینوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے بارے میں وہ کلنٹن کی سوچ کے حامی ہیں، جنھوں نے امریکی سینیٹر اور وزیر خارجہ کے طور پر عراق، لیبیا سے یوکرین تک مداخلتی پالیسیوں کی حمایت اور نگہبانی کی ہے۔

امور خارجہ کے شعبے میں ٹرمپ کے مقابلے میں کلنٹن کے خیالات مختلف ہیں، حالانکہ ایسا بھی ہے کہ کبھی کبھار اُن کا ریکارڈ انتہائی متضاد رہا ہے (واضح ٹیلیفون گفتگو سےلے کر مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو فتح کرنا اُن پر قبضہ جمانا، ’’تیل حاصل کرنے‘‘ کے بدلے امریکہ کی جانب سے دنیا میں وسیع تر فوجی برداشت کی تجاویز کا لحاظ کرنا شامل ہے)۔

ابھی یہ واضح نہیں آیا امریکی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کو ووٹ دے گی یا کلنٹن کو۔

تاہم، اگر ’’شاہین‘‘ بڑی تعداد میں کلنٹن کی حمایت کرتے ہیں تو ایک گروپ کی جانب سے ہمدردیاں تبدیل کرنے کا یہ ایک اہم معاملہ ہوگا جو عشروں تک ری پبلیکن پارٹی کے ساتھ رہے ہیں۔

اس ہفتے، خارجہ پالیسی کے نمایاں لوگ جو کلنٹن کے حامی بنے ہیں اُن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اُن میں اب متعدد مشہور شخصیات شامل ہوگئی ہیں جن میں سابق معاون وزیر خارجہ رچرڈ ارمیٹیج ؛ نیشنل انٹیلی جنگ کے سابق سربراہ جان نیگروپونٹے؛ اور ’سی آئی اے‘ کے سابق سربراہ، مائیکل موریل شامل ہیں، جنھوں نے حالیہ دِنوں ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع اپنی تحریر میں کہا ہے کہ ٹرمپ ’’ہماری قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG