رسائی کے لنکس

 روبوٹس کا کارآمد ہونا بہتر ہے یا انسان نما ہونا؟


 ہیومنائڈ روبوٹ'ڈیسمونا' ۔ فوٹو رائٹرز
ہیومنائڈ روبوٹ'ڈیسمونا' ۔ فوٹو رائٹرز

سائنس فکشن اورفلموں میں انسان نما روبوٹس اور انہیں مختلف کام انجام دیتے ہوئے دکھانا ا اب عام بات ہو گئی ہے مگر عام زندگی میں ایسا کوئی مشینی انسان بنانے کا خواب جو انسان کی طرح نظر بھی آئے اور مفید بھی ہو ابھی تک ایک خواب ہی ہے ۔ لیکن اب جب مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا کریز بڑھ رہا ہے انسان نما روبوٹ بنانے پر سرمایہ کاری کا ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔

ٹکنالوجی کی مختلف کمپنیاں مختلف قسم کے روبوٹس بنانے پر پیسہ اور وقت صرف کر رہی ہیں۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں اب تک انسانی شکل کے روبوٹس کے جو ماڈل سامنےآئے ہیں وہ دیکھنے میں بھدے ہیں اورعملی طور پر بھی کوئی خاص مفید نہیں ۔

وہ حقیقی دنیا کی بجائے صرف اسٹیج شوز ہی میں زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود کچھ اسٹارٹ اپ کمپنیاں اسکے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ایسی ہی ایک کمپنی” ایجیلٹی روبوٹکس “ہے جس کے چیف روبوٹ آفیسر اور کو فاؤنڈر، جونیتھن ہرسٹ کہتے ہیں کہ ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ ہم کوئی ایسا روبوٹ بنائیں جو ایک انسان کی طرح دکھائی دے بلکہ ہم ایسے روبوٹس بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو گھروں میں دفتروں میں اور کاروباری مقامات پر انسانوں کے درمیان کام کر سکیں۔

انہوں نے ایجیلٹی کے گوداموں میں کام کرنے والے روبوٹ ڈیجیٹ کا حوالہ دیا جو سامان اٹھا سکتا ہے اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتا ہے ۔

ڈیجیٹ کا ایک سر ہے جس میں کیمرے لگے ہیں ، دوسرے سنسرز اور حرکت کرنے والی آنکھیں ہیں ، اور اس کا ایک دھڑ ہے جو اس کے انجن کے طور پر کام کرتا ہے اس کے دو بازو اور دو ٹانگیں ہیں لیکن اس کی ٹانگیں انسانی ٹانگوں سے زیادہ پرندوں کی ٹانگوں جیسی ہیں اس اس کے گھٹنے کتے بلیوں اور اور پنجوں کے بل چلنے والے جانوروں سے ملتے جلتے ہیں۔

ایمازون نےاکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے گوداموں میں ڈیجٹس کو ٹسٹ کرنا شروع کرے گا۔ اور ایجیلٹی نے ستمبر میں اوریگان میں ڈیجیٹس کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لیے ایک فیکٹری کھول لی ہے ۔

تاہم ان کی حریف کمپنیاں مثلاً"" فگر اے آئی کا موقف ہے کہ صرف انسانی شکل کے روبوٹ ہی کام کی جگہوں ، گھروں اور ایک ایسی سوسائٹی میں کام کر سکتے ہیں جو انسانوں کی لیے بنی ہے۔

فگر اے آئی ایسے کمرشل روبوٹس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جو نسبتاً سادہ کاموں کے لیےاستعمال ہو سکیں ، مثال کے طور پر ریٹیل سامان کے گوداموں میں سامان اٹھانے اور انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنے کے لیے جنہیں آہستہ آسستہ بہتر بنایا جاسکے بالکل اسی طرح جیسے آئی فون موجودہ شکل تک پہنچنے سے قبل مختلف مراحل سے گزرا ہے۔

فگر اے آئی کے سی ای او بریٹ ایڈوک کہتے ہیں ۔ کہ اگر ہم ایسے انسان نما رو بوٹ بنا لیں جو وہ کام کر سکیں جوانسان نہیں کرنا چاہتے اور ایسے کاموں کے لیے کارکنوں کی کمی ہو چکی ہو تو ہم لاکھوں اور ہو سکتا ہے اربوں روبوٹس بیچ سکیں۔

کار ساز کمپنی ٹیسلا کے سی ای او ایلان مسک بھی اپنی کار کمپنی کے روباٹک ڈویژن کے ذریعے آپٹیمس نامی انسانی شکل کا روبوٹ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لیکن گزشتہ سال جب انہوں نے اپنے تیار کردہ روبوٹ کو روباٹکس کے ماہرین کے سامنے نمائش کے لیے پیش کیا تو وہ اس کے چلنے کے انداز سے متاثر نہیں ہوئے ۔

اسی طرح ٹکساس کی کمپنی،"" ایپٹرانک نے بھی اگست میں اپنے انسان نما روباٹ اپالو کی ایک ویڈیو ڈیمانسٹریشن کی تھی ۔

لیکن انسانی شکل کی مشینیں بنانے پر پیسہ اور تمام توجہ مرکوز کرنا ٹکنالوجی کے شعبوں کے دولتمند افراد کا ایک لاحاصل مشغلہ دکھائی دیتا ہے۔ ۔ تاہم ٹانگوں والے روبوٹس کے بانیوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ بتدریج سیکھنے کا عمل ہے ۔

بوسٹن ڈائنامکس کے کو فاؤنڈر Marc Raibert جو کتے کی طرح کے اپنے اسپاٹ نامی روبوٹ کی وجہ سے مشہور ہیں ، کہتے ہیں کبھی کبھی ترقی کا راستہ بالکل سیدھا نہیں ہوتا ۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

ان کی کمپنی نے جو اب کار ساز کمپنی ہنڈائی کا حصہ ہے ایک ایسا انسان نما روبوٹ بنانے کا تجربہ کیا تھا جو ڈبوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتا ہے۔

انہوں نے ای میل کے ذریعے بتایا ا کہ اس تجربے کے نتیجے میں ایک نیا روبوٹ بنایا گیا جو در حقیقت انسان نما تو نہیں تھا لیکن اس میں اس کی بہت سی خصوصیات تھیں ۔ وہ زیادہ تیزی سے ڈبوں کو ہینڈل کر سکتا تھا، زیادہ گھنٹے تک کام کرسکتا تھا ، اور تنگ جگہوں پر کام کر سکتا تھا مثلاً ٹرک کے اندر۔ تو انسان نما روباٹ پر ریسرچ کے نتیجے میں ایک غیر انسانی شکل کا ایک مفید روبوٹ تیار ہو گیا ۔

بوسٹن روباٹکس کا کتے کی طرح کا روبوٹ جسے جنوبی اٹلی کے ایک پارک میں ایک پریزنٹیشن کے دوران لوگ دیکھ رہے ہیں، فوٹو اے پی 9 جون 2022
بوسٹن روباٹکس کا کتے کی طرح کا روبوٹ جسے جنوبی اٹلی کے ایک پارک میں ایک پریزنٹیشن کے دوران لوگ دیکھ رہے ہیں، فوٹو اے پی 9 جون 2022

کینڈا میں قائم ایک اسٹارٹ اپ کمپنی، سینکچری اے آئی " کے کو فاؤنڈر اور سی ای او ، Geordie Rose کہتے ہیں کہ ایک چلنےوالا روباٹ بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ ایسا روباٹ بنانا ہے جو دنیا کو سمجھ سکے اور جسے آپ اپنی مرضی سے استعمال کر سکیں ۔

سینکچری نے حال ہی میں اپنا پہلا دو ٹانگوں والا روباٹ، " " فینیکس بنایا ہے جو چیزوں کو شیلف میں رکھ سکتا ہے ، گاڑیوں سے سامان اتار سکتا ہے اور چیک آؤٹ کو آپریٹ کر سکتا ہے ۔

Geordie Rose کہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو ایسے مشینی کارکن فراہم کریں جو صرف کسی ایک کام کے لیے ہی مخصوص نہ ہوں بلکہ جس کسی کو بھی اس کی ضرورت ہو وہ اس کا کام کرسکیں۔ اور ان کا سسٹم ایسا ہو جو انسانوں کی طرح سوچ سکے۔

تو ہم اسے آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس کا نام دے سکتے ہیں۔ ۔ اور اگر میں مزید وضاحت کروں تو وہ ایسے روباٹس ہوں جو انسانوں کی بات سمجھ سکیں اور اور ان کی بات پر عمل بھی کر سکیں ۔ ایسے روبا ٹس ہی پوری معیشت میں داخل ہو کر اطمعنان بخش کام کر سکتے ہیں۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG