رسائی کے لنکس

لشکر کشی نہ کی جائے، شام کا سعودی عرب اور دیگر ملکوں کو انتباہ


ولید المعلم
ولید المعلم

اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، شام کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب کو خبردار کیا کہ ''شام کے خلاف کسی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اور، اگر ایسا کیا گیا، تو جارح کو لکڑی بند کفن میں ملک واپس بھیجا جائے گا''

شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب اُن کے ملک فوجیں نہ بھیجے۔ ہفتے کے روز ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو فوجیوں کو 'کفن' پہنا کر اُن کے ملک واپس کیا جائےگا۔

اس موقعے پر صحافیوں کے علاوہ، چوٹی کے سرکاری اہل کار اور دیگر مہمانوں نے نامور شامی وزیر خارجہ ولید العلم کے بیان پر چونک اٹھے، جنھوں نے اقوام متحدہ کے توسط سے جنیوا میں ہونے والے امن مذاکرات کے خلاف ڈٹ کر بات کی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ فوجی کارروائی تب تک جاری رہے گی ''جب تک دہشت گردوں کو شکست نہیں ہوجاتی''۔

معلم نے زور دے کر کہا کہ اقوام متحدہ کی کوششوں کے باوجود، حکومتِ شام کسی جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوگی، جب تک داعش، القاعدہ اور دیگر ''دہشت گرد'' گروپ ملک میں لڑتے رہیں گے۔ اُنھوں نے سعودی عرب کو بھی متنبہ کیا کہ وہ شام میں لڑائی کے لیے افواج نہ بھیجے۔

اُنھوں نے کہا کہ ''منطق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ شام میں کوئی (سعودی) بَری مداخلت ہو۔ لیکن، اس طرح کی سعودی حکومت کی غلطی کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی بھی چیز خارج از امکان نہیں''۔

اُنھوں نے سعودی عرب کو خبردار کیا کہ ''شام کے خلاف کسی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اور، اگر ایسا کیا گیا، تو جارح کو لکڑی بند کفن میں ملک واپس بھیجا جائے گا''۔

سعودی وزارتِ دفاع کے ترجمان، جنرل احمد الاسیری نے جمعے کو عرب ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اُن کا ملک شام میں لڑنے کے لیے بَری فوج بھجوانے پر تیار ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ''سعودی عرب شام میں حربی کارروائی میں شرکت کرنے پر تیار ہے، جس پر (امریکی قیادت والے) اتحاد نے دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے کی حامی بھری ہے''۔

واشنگٹن میں جمعےکے روز اخباری کانفرنس کے دوران امریکی صدر براک اوباما نے فوجیں بھیجنے کی سعودی پیش کش کا خیر مقدم کیا۔

جنیوا مذاکرات

وزیر خارجہ المعلم نے شامی مخالفین رہنمائوں سے بات چیت کرنے پر اقوام متحدہ کےایلچی اسٹیفن دی مستورا کو تنقید کا نشانہ بنایا، جن کے بارے میں، اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ ''شامی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے''۔ اُنھوں نے حکومت سے لڑنے والےمسلح گروپوں پر شدید تنقید کی اور فوجی مدد کے لیے روس کا شکریہ ادا کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ روس کا کردار تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک داعش، جبہت النصرہ اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروہوں کو شکست نہیں ہو جاتی، جو اقوام متحدہ کی قراردادون کے عین مطابق ہے۔

بدتر صورت حال

ندیم شہادی 'ٹفٹس یونیوریسٹی' کے فلیچر اسکول آف ڈپلومیسی میں 'عصام فارس سینٹر' کے سربراہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شام کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جائے گی، جب تک کہ حکومت شام اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف ضروری طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا۔

بقول اُن کے، ''اب یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ روس، ایران اور (اسد) حکومت شام میں فوجی حل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا امریکہ اور اُس کے اتحادی اسی شد و مد سے جواب نہیں دے پا رہے ہیں، جس سے خطے میں مزید مایوسی اور انتہا پسندی جنم لے گی''۔

تاہم، دبئی سے تعلق رکھنے والے مشرق وسطیٰ کے تجریہ کار، تھیوڈور کاراسک نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ ''امریکہ کے اتحادیوں اور سودی عرب اور ترکی جیسے حکومت شام کے دشمنوں کی مداخلت سے 'پاگل پنے' کو شہ ملے گی، چونکہ 'ماحول نہایت ہی مشتعل ہے'۔ لیکن، اب کوئی بھی بات ہمیں حیران کُن نہیں لگے گی''۔

XS
SM
MD
LG